وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے عیدالفطر کے موقع پر کورونا وباء کے مزید پھیلاؤ کے خدشے کے پیش نظر تمام سیاسی جماعتوں اور منتخب عوامی نمائندوں سے اپیل کی تھی کہ وہ عید کے موقع پر اپنے حلقوں اور حجروں میں لوگوں سے عید ملنے اور دیگر میل جول سے گریز کریں تاکہ لوگوں کی زندگیوں کو محفوظ بنایا جاسکے۔وزیر اعلی نے کہا تھا کہ کورونا کی موجودہ صورتحال تشویشناک ہے اور عید کے موقع پر صورتحال مزید خراب ہونے کا خدشہ تھااور ہماری معمولی سی کوتاہی یا غفلت ہمیں کسی بڑی مصیبت سے دوچار کر سکتی ہے۔ اب عید بھی گزر چکی ہے،وزیر اعلیٰ کی ہدایات پر عمل کس حد تک ہوا اس سے قطع نظر عوامی سطح پر زیادہ تر لوگوں نے عید پر ایس اوپیز کو بالائے طاق رکھا اور اگر دور دراز سیاحت کے دروازے بند کئے گئے مگر لوگوں نے گھروں سے نکل کر آس پاس آؤٹنگ ضرور کی۔حقیقت یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ کا یہ کہنا درست ہے کہ عوامی نمائندے کو کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد کیلئے عوام کو آگہی دینے کے سلسلے میں اپنا اہم کردار ادا کریں۔ وزیر اعلی کا کہنا تھا کہ کورونا وبا صرف حکومت یا کسی ایک سیاسی جماعت کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک قومی اور اجتماعی مسئلہ ہے جس سے موثر انداز میں نمٹنے کیلئے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے سیاسی رہنماؤں کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ہمارے منتخب عوامی کی قومی،اخلاقی اور مذہبی ذمہ داری بھی بنتی ہے کہ وبائی صورتحال میں عوام کے ساتھ قریبی رابطہ رکھیں۔ ان کے دکھ درد میں شریک ہوں اور ان کے مسائل حل کریں۔ لیکن ہمارے منتخب نمائندوں کی اکثریت پانچ سالوں میں صرف الیکشن سیزن میں ہی عوام کو نظر آتی ہے بہت کم ایسے ہوں گے جو اپنے علاقوں کا مہینے میں ایک بار ضروردورہ کرتے ہیں کھلی کچہریاں لگاتے ہیں۔ ان کے دروازے عوام کیلئے کھلے رہتے ہیں لوگوں کی غمی خوشی میں شرکت کرتے ہیں۔ خود کو عوامی مسائل سے باخبر رکھتے ہیں۔ بعض ایم پی ایز توگذشتہ تین سالوں میں ایک بار بھی اپنے حلقہ نیابت میں نظر نہیں آئے۔ وزیراعلیٰ محمود خان ایسے ممبران اسمبلی کیلئے رول ماڈل ہیں وہ اعلیٰ انتظامی عہدے پر فائز رہنے کے باوجود نہ صرف مہینے میں ایک بار اپنے حلقہ نیابت کا دورہ کرتے ہیں بلکہ پشاور اور صوبے کے دیگر علاقوں کا بھی اچانک دورے کرتے رہتے ہیں عوامی مسائل سے خود کو باخبر رکھتے ہیں۔کبھی تھانوں میں جاکر عوام کے ساتھ پولیس کے برتاؤ کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں۔ کبھی پٹوارخانے میں جاکر سہولیات کا جائزہ لیتے ہیں کبھی ہسپتالوں اور سکولوں کا دورہ کرتے ہیں اور کبھی اراکین اسمبلی سے ملاقات کرکے ان کے حلقوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وزیراعلیٰ بار بار اپنے اراکین اسمبلی کو تلقین کرتے رہتے ہیں کہ وہ عوام سے قریبی رابطہ اور تعلق رکھیں مگر کسی کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی۔ یہ صورتحال آئندہ انتخابات میں حکمران جماعت کیلئے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ کیونکہ جس ایم پی اے کو عوام نے اپنے حلقے میں تین سالوں میں ایک بار بھی نہیں دیکھا اسے اگلے پانچ سال کیلئے کیوں ووٹ دیں گے۔کورونا کی موجودہ بحرانی صورتحال میں منتخب عوامی نمائندوں پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ وہ اپنے علاقوں میں وباء کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے اقدامات کریں۔عوام کے ساتھ بیٹھ کر ان کے دکھوں کا مداوا کریں اگر شہری مسائل حل نہیں کرسکتے تو انہیں تسلی تو دے سکتے ہیں اور ایس او پیز پر عمل کرنے کی تلقین تو کرسکتے ہیں اگر اتنا کام بھی نہیں کرسکتے تو انہیں عوام کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے اور اسمبلی میں بیٹھ کر قوم کا وقت اور وسائل ضائع کرنے کا بھی کوئی حق نہیں پہنچتا۔