خیبرپختونخوا کے انتہائی شمال میں واقع چترال ’مالاکنڈ ڈویژن‘ کا حصہ ہے جو باجوڑ‘ بونیر‘ مالاکنڈ ضلع‘ شانگلہ‘ سوات‘ بالائی و زریں دیر اور بالائی و زیریں چترال پر مشتمل ہے۔ سال 2018ء میں ضلع چترال کو 2 حصوں (بالائی اور زیریں) میں تقسیم کرنے کے بعد یہ رقبے کے لحاظ سے خیبرپختونخوا کا سب سے بڑا ضلع نہیں رہا لیکن مجموعی طور پر 14 ہزار 850 مربع کلومیٹر پر مشتمل ضلع چترال مشرق میں گلگت بلتستان‘ شمال میں افغانستان کے صوبوں کنڑ‘ بدخشاں اور نورستان جبکہ مغرب میں ضلع سوات اور جنوب میں ضلع دیر سے ملتا ہے۔ شمال ہی میں ایک راہداری ضلع چترال کو تاجکستان سے الگ کرتی ہے۔ اِس جغرافیائی محل و وقوع کو بیان کرنے کا مقصد ضلع چترال کی اہمیت اُجاگر کرنا ہے جو سیاحتی امکانات‘ باغات‘ زراعت اور قدرتی وسائل (بشمول معدنیات و قیمتی پتھروں سے) مالامال ہے لیکن چترال کی غربت و پسماندگی کی انتہا یہ ہے کہ ہر سال اوسطاً ساٹھ خواتین خودکشی کر رہی ہیں۔ چترال میں خواتین کی خودکشی کے واقعات اِتنی بڑی تعداد اور تسلسل کے ساتھ رونما ہو رہے ہیں کہ اِن کے بارے میں بنائی گئی ایک فلم کو عالمی اعزاز ملا ہے۔ چترال دریائے کنر (Kunhar) کے کنارے واقع ہے جسے مقامی کھواڑ زبان میں ’خوندار سین (خون کا پیاسا دریا)‘ کے نام سے پکار جاتا ہے کیونکہ اِس دریا میں کود کر خودکشی کرنے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ضلع چترال میں خودکشی کرنے والی خواتین میں اکثریت نوجوان لڑکیوں کی ہے اور اِس سلسلے میں بتایا جاتا ہے کہ پولیس ایسی بیشتر خودکشیوں کے مقدمات مختلف وجوہات کی بنا پر درج نہیں کرتی اور اگر خیبرپختونخوا میں ہونے والی سالانہ خودکشیوں کے اعدادوشمار کو دیکھا جائے تو (بالائی و زیریں) چترال میں ہونے والے خودکشی کے واقعات سب سے زیادہ ہیں!امریکہ کے شہر نیویارک میں منعقدہ ’عالمی فلمی میلہ (ورلڈ فلم فیسٹول)‘ میں پیش کردہ ایک مختصر دورانئے کی فلم ضلع چترال میں خواتین کی خودکشیوں سے متعلق تھی۔ تیس منٹ دورانئے کی اِس فلم کی پروڈیوسر نگہت اکبر شاہ جبکہ ڈائریکٹر شعیب سلطان نے بعنوان ”دریا کے اس پار“ میں ایک لڑکی ’گل زرین‘ کی کہانی کو مرکزی خیال بنایا ہے جو اپنی کم سنی کے دوران اہل خانہ کے بُرے رویے سے ذہنی مریضہ بن جاتی ہے اور پھر یہ ذہنی لاحقے اُس کی باقی ماندہ حتیٰ کہ شادی شدہ زندگی میں بھی اُس کی خوشیوں کو متاثر کرتے ہیں اور وہ ایک معمول کی زندگی بسرنہیں کر پاتی۔ مذکورہ مختصر فلم میں جہاں خودکشیوں کو موضوع بنایا گیا ہے وہیں نفسیاتی مسائل کو اُجاگر کرتے ہوئے نفسیاتی معالجین کی کمی یا نفسیاتی علاج معالجے کی ناکافی سہولیات سے متعلق صورتحال کو بھی پیش کیا گیا ہے۔ تصور کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں علاج معالجے کی سہولیات کا معیار و مقدار کیا ہے۔ بیس کروڑ آبادی کے ملک میں 100 سے کچھ زائد میڈیکل کالجز ہیں جبکہ قریب 500 لائسنس یافتہ نفسیاتی معالجین ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہر چار لاکھ افراد کیلئے ایک نفسیاتی معالج ہے اور اِن نفسیاتی معالجین کی اکثریت کا تعلق بڑے شہروں سے ہے جو اِس بات کے بارے میں سوچتے بھی نہیں کہ اُنہیں پسماندہ اور دور افتادہ علاقوں میں بھی جانا چاہئے جہاں کے رہنے والوں کو بھی اُن کی ضرورت ہے۔پاکستان میں خودکشی کرنے والوں میں امیر‘ متوسط اور غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے شامل ہیں۔ یہاں تک کہ مالی طور پر انتہائی مستحکم اور بظاہر ہر قسم کی آسائشوں سے لطف اندوز ہونے والے انتہائی سرمایہ دار طبقے سے تعلق رکھنے والوں میں بھی خودکشی کا رجحان پایا جاتا ہے اور اِسی بارے میں طبی ماہرین نفسیاتی علاج معالجے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں جو طب کا خصوصی شعبہ ہے۔ خودکشی کا محرک بننے والے جذبات کئی ایک ہو سکتے ہیں اور اِن میں زیادہ حاوی اثر غربت کا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ضلع چترال اور اِس سے ملحقہ گلگت بلتستان میں خودکشیوں کے واقعات میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ سال2007ء سے 2011ء کے درمیانی عرصے میں ہوئے خودکشی کے واقعات کا مطالعہ کیا گیا جس سے معلوم ہوا کہ ضلع چترال میں 300 خودکشی کے واقعات رونما ہوئے لیکن یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ سال 2013ء سے 2016ء کے درمیانی عرصے میں 176 خودکشی کے واقعات رپورٹ ہوئے اور سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ پولیس کو رپورٹ ہوئے خودکشی کے واقعات تعداد کے لحاظ سے اصل خودکشی کے واقعات سے کم ہیں۔ چترال کی آبادی قریب پانچ لاکھ ہے جہاں ہونے والی خودکشیوں میں سے 82 فیصد کا تعلق 15 سے 30 سال کی عمروں سے ہے اور اِن میں 58فیصد خواتین پائی گئیں ہیں۔ ضلع چترال کے بالائی اور زریں اضلاع میں قانون نافذ کرنے والوں کی تعداد (پولیسنگ کا نظام) حسب آبادی وسیع نہیں اُر یہی وجہ ہے کہ جرائم کی اکثریت بشمول خودکشیاں حسب تعداد رپورٹ نہیں ہوتیں۔’دریا کے اِس پار (This bank of the river)‘ نامی فلم چترال میں ہونے والی خودکشیوں کے بارے توجہ دلانے کی پہلی کوشش نہیں بلکہ موبائل فون کے ذریعے اِس موضوع پر چترال کی مقامی زبانوں میں کئی فلمیں اور ڈرامے ویڈیو بلاکنگ ویب سائٹس (بالخصوص یوٹیوب) پر موجود ہیں اور یہ سوشل میڈیا پر بھی زیرگردش ہیں لیکن جس انداز میں ’دریا کے اِس پار‘ کی عالمی پذیرائی ہوئی ہے اور اِس فلم کو 3 اعزازات ملے ہیں‘ اُس کی بنیادی وجہ فلم سازی (پروڈکشن) کا اعلیٰ معیار اور فلم کی تیاری (پوسٹ پروڈکشن) میں استعمال کی گئی مہارت ہے۔ فلم ساز (پروڈیوسر) نگہت شاہ امریکہ میں مقیم ہیں اور اُنہوں نے ایک خطیر رقم سے سرمایہ کاری کی ہے جبکہ اِسے عالمی سطح پر نمائش اور عالمی مقابلوں میں پیش کرنے کو بھی فلم کی تیاری سے قبل ہی ذہن میں رکھا گیا تھا یہی وجہ ہے کہ اُردو زبان میں بننے والی یہ فلم اپنے عکاسی کے لحاظ سے بھی یہ خصوصیت رکھتی ہے کہ اُردو زبان نہ سمجھنے والے بھی اِس کی کہانی اور پیغام کو سمجھ سکیں۔ ’دریا کے اِس پار‘ کی پاکستان میں خاطرخواہ پذیرائی نہیں ہوئی‘ جس کی منطقی وجہ سمجھ میں آ سکتی ہے لیکن اگر صحافت کی اعلیٰ تعلیم کے شعبہ جات کے نصاب میں اِس قسم کی فلموں کو شامل کیا جائے تو اِس سے دستاویزی فلم اور تحقیق کے شعبوں میں سوچ بچار کو فروغ ملے گا۔ ’دریا کے اِس پار‘ ایک آئینہ ہے جس میں صرف چترال ہی نہیں بلکہ خیبرپختونخوا اور پاکستانی معاشرے کی شکل و صورت‘ عادات و اطوار‘ خواتین سے روا رکھے جانے والے سلوک اور اُن کے نفسیاتی مسائل (الجھنوں) کو دیکھا جا سکتا ہے لیکن اگر کوئی دیکھنا چاہے۔