پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف 

 افغانستان کیلئے امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے انکشاف کیا ہے کہ امریکہ نے  برطانیہ کوپاکستان اور افغانستان کے مابین سکیورٹی تعاون کے معاہدے میں معاونت کی ذمہ داری سونپ دی ہے۔ ایک انٹرویو میں زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ  برطانیہ افغانستان اور پاکستان کے مابین سلامتی اور دفاعی معاہدے پر دستخط کرنے میں مدد فراہم کرنا چاہتا ہے جو پاکستان کے مفاد میں ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے افغانستان میں جائز مفادات ہیں اور افغانوں کو اس کا احترام کرنا چاہئے۔ ہم سکیورٹی معاہدے پر دستخط، افغانستان اور پاکستان کو قریب لانے کیلئے برطانیہ کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ دریں اثناء افغانستان کے نائب صدر امراللہ صالح نے کہاہے کہ   افغانستان دنیا کے ساتھ تعلقات کے ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے۔ خطے اور پڑوسیوں کا کردار پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔افغانستان اور پاکستان کے مابین سکیورٹی تعاون کا معاملہ دو ماہ سے گرم ہے پاکستان افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کرنے اور سکیورٹی تعاون میں سنجیدہ دکھائی دے رہا ہے۔گذشتہ تین سالوں سے افغانستان میں قیام امن اور پاک افغان تعلقات کو مستحکم کرنے کے لیے پاکستان نے موثر کردار اداکیا ہے۔یہ بات قابل اطمینان ہے کہ امریکہ، برطانیہ اور افغان حکام نے قیام امن کیلئے پاکستان کے کردار کو تسلیم کرلیا ہے اور وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ افغانستان میں کشیدگی کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو پہنچا ہے۔پاکستان کی مجبوری یہ ہے کہ اس کی مشرقی سرحد دیرینہ حریف بھارت اور مغربی سرحد مسلم اکثریتی ملک افغانستان کے ساتھ ملتی ہے۔ پڑوسی تبدیل نہیں کئے جاسکتے اگرترقی یافتہ اور پرامن پڑوسی مل جائیں تو یہ ریاست کی خوش قسمتی ہے۔ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ دونوں جانب کے پڑوسی پریشان کن ہیں افغانستان میں طویل خانہ جنگی کے بعد بھارت کو امریکہ کے تعاون سے تعمیر نو کے بہانے افغانستان میں اپنے پیر جمانے کا موقع مل گیا اور اب وہ مشرقی سرحدوں پر کشیدگی بڑھانے کے ساتھ افغانستان سے بھی  پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کاروائیوں میں مصروف ہے۔ پاکستان نے ہر مشکل وقت میں اپنے افغان مسلمان بھائیوں کا ساتھ دیا۔ جب سوویت یونین نے افغانستان میں فوجی مداخلت کی تو وہاں سے چالیس لاکھ افغانی ہجرت کرکے پاکستان آگئے 42سال تک پاکستان نے اپنے افغان مہاجر بھائیوں کی میزبانی کی۔اس کا صلہ یہ ملا کہ پاکستان میں ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر متعارف ہوا۔کراچی سے خیبر تک ہزاروں کی تعداد میں خود کش حملے اور بم دھماکے ہوئے جن میں فوجی و پولیس افسروں اور اہلکاروں سمیت 50ہزار پاکستانی شہید ہوئے اور 80ارب ڈالر کا مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے تعلیمی ادارے اب تک بحال نہیں ہوسکے ہیں۔ اتنے جانی و مالی نقصانات کے باوجود پاکستان کی قربانیوں کو تسلیم نہیں کیا گیا اور امریکہ کی طرف سے ڈو مور کا مطالبہ کیاجاتا رہا۔  زلمے خلیل زاد کی طرف سے پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف خوش آئند ہے۔ یہ بات امریکہ اور افغانستان کی قیادت سمیت پوری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کی مدد اور تعاون کے بغیر افغانستان میں پائیدار امن قائم نہیں ہوسکتا۔ پاکستان پردباؤ ڈال کر کام نکالنے کی پالیسی بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ اب امریکہ، نیٹو اور افغان قیادت کو بھی قیام امن اور افغانستان کی تعمیر و بحالی میں پاکستان کے کردار کو دل سے تسلیم کرنا اور اس کا کریڈٹ دینا چاہئے۔ پاکستان اور افغانستان دونوں ممالک کے آپس میں تعلقات جس قدر خوشگوار ہوں گے اس قدر ان ممالک میں امن و خوشحالی کا دور دورہ ہوگا کیونکہ اگر افغانستان میں بدامنی ہے تو پاکستان پر اس کے اثرات ضرور مرتب ہوں گے اس لئے تو پاکستان کی کوشش ہے افغانستان میں جلد از جلد امن بحال ہو اور اس مقصد کے حصول کیلئے وہ بھرپور تعاون بھی کر رہا ہے۔