کورونا وبا سے فائدہ اور نقصان اُٹھانے والوں کی کہانیاں تاریخ میں محفوظ ہو رہی ہیں اور انسانی تاریخ میں ’خودغرضی پر مبنی‘ اِن ’سبق آموز کہانیوں‘ کے بارے میں جو تاریخ رقم ہوگی اُس میں لکھا جائے گا کہ انسانوں نے کبھی بھی اپنے ماضی سے سبق نہیں سیکھا باالفاظ دیگر جہاں انسانیت کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت تھی‘ وہاں انسانوں نے انسانوں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھایا۔ عیدالفطر کی مصروفیات کے بعد دیگر ملکی و غیرملکی خبروں کی وجہ سے پاکستان کے ذرائع ابلاغ نے ایسے موضوعات پر خاطرخواہ تبصرہ نہیں کیا اور نہ ہی حسب عادت ایسی خبروں کی تکرار ہو رہی ہے‘ جو کورونا کے علاج سے لیکر اِس سے بچاؤ کی جعلی ویکسین اور بیماری کو پوشیدہ رکھنے کے عوض بدعنوانیوں سے ہے! ادویات کی مصنوعی قلت پیدا کرکے ناجائز منافع خوری اس قدر عام ہو چکی ہے کہ اب اِس کا ذکر کرنا بھی فضول لگتا ہے۔ اندھے بہرے‘ لولے لنگڑے حکومتی اداروں سے کسی خیر کی توقع نہیں رہی اور نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں پائے جانے والے کورونا وبا کا جرثومہ (بخیریت و اہتمام) پاکستان پہنچ چکا ہے! پشاور کے ہوائی اڈے (باچا خان انٹرنیشنل ائرپورٹ) پر ایک نجی جہاز راں کمپنی (ائر بلیو) کی پرواز سے 52 ایسے مسافر پشاور پہنچے جنہیں کورونا وبا کی تشخیص کے جعلی تجزئیات (PCR) کی بنیاد پر ہوائی سفر کی اجازت دی گئی تھی۔ شہری ہوا بازی کے محکمے کی جانب سے سامنے آنے والی وضاحت سے معلوم ہوا کہ نجی کمپنی نے خلیجی ملک متحدہ عرب امارات (شارجہ) سے اضافی کرائے کے عوض ایسے مسافروں کو سوار کیا‘ جن کے جعلی تجزئیات کے بارے میں اُسے (مبینہ طور پر) علم تھا چونکہ ائر بلیو پاکستان کے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی ملکیت ہے جن کا شمار مسلم لیگ نواز کے سینئر رہنماؤں میں ہوتا ہے اور وہ نواز شریف کی عدم موجودگی میں نواز لیگ کے مفادات کا تحفظ کرنے میں پیش پیش ہیں‘ اِس لئے اُن کے خلاف تاحال کسی بھی قسم کی کاروائی عمل میں نہیں آئی اور اگر ایسا کیا گیا تو نواز لیگ اِسے ’ایک اور سیاسی انتقام‘ قرار دیتے ہوئے نعرہ لگائے گی کہ ’ووٹ کو عزت دو!‘ سمجھ سے بالاتر ہے کہ ووٹ کو آخر کتنی عزت دی جائے کہ وہ سبھی سیاست دان جو نشہ آور ادویات کی ضرورت سے زائد درآمد اور آمدن سے زائد اثاثہ جات تک جرائم کی ایک صف میں کھڑے ہیں وہ پاکستان کے عوام سے آخر چاہتے کیا ہیں اور اُن کی نظر میں ’ہم عوام‘ ایک ایسی مخلوق ہیں جن کے سر میں دماغ نہیں اور وہ اِن کی اظہر من الشمس بدعنوانیوں اور اِن کی سیاست کے باطن کو نہیں جانتے! تصور محال ہے کہ پاکستان کے سبھی بڑے انعامی بانڈز سیاست دانوں یا اُن کے عزیزواقارب کے نکلتے رہے ہیں اور جب عدالت میں اِن سے استفسار ہوتا ہے تو اُن کے پاس ’کالے دھن‘ کو سفید کرنے کے دستاویزی ثبوت پائے جاتے ہیں‘ جن کی بنیاد پر اِن کی ضمانتیں اور بریت ہوتی ہے!کوورنا وبا کو پاکستان درآمد کرنے کا الزام انتہائی سنگین اور قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ کوئی اور ملک ہوتا تو فوری طور پر نجی جہاز راں فضائی کمپنی پر پابندی عائد ہو چکی ہوتی یا سول ایوی ایشن کی ’غلط بیانی‘ پر اُسے اربوں روپے ہتک عزت کا دعویٰ بھگتنا پڑتا لیکن پاکستان میں حکومتی محکمے اور نجی ادارے ایک دوسرے کے مفادات کے محافظ ہیں۔ صرف ایک مرتبہ نہیں بلکہ اِس سے قبل بھی کورونا وبا سے مثبت مریضوں کو پاکستان لایا جا چکا ہے جن کا پہلا انتخاب پشاور ائر پورٹ ہوتا ہے کیونکہ یہاں بیرون ملک سے آئے مسافروں سے زیادہ پوچھ گچھ یا جانچ پڑتال نہیں کی جاتی۔ کورونا وبا کے ٹیسٹ کا نتیجہ چونکہ فوری طور پر نہیں آتا اِس لئے کسی مسافر کو فوراً مریض ثابت کرنا ممکن نہیں ہوتا اور اِسی شک کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے پشاور اُترنے سے پہلے مریض مسافر پیناڈول اور پیراسیٹامول کی گولیاں نگل لیتے ہیں جن کی وجہ سے اُن کا جسمانی درجہئ حرارت چند گھنٹوں کیلئے کم ہو جاتا ہے اور وہ ائرپورٹ پر عمومی جانچ پڑتال کے مراحل سے باآسانی گزر جاتے ہیں۔ سول ایوی ایشن کے ترجمان کا یہ بیان اپنی جگہ حقیقت ہونے کے باوجود بھی ’بے معنی‘ ہے کہ ”سولہ مئی کے روز ائر بلیو کی ایک پرواز سے 27 پازیٹو مسافروں کو لیکر شارجہ سے پشاور ائرپورٹ پہنچی جبکہ اس سے ایک ہفتہ قبل بھی ایک پرواز 24 کورونا پازیٹو مسافروں کو دبئی سے پشاور لا چکی تھی۔ نجی ائرلائن کی جانب سے کورونا ایس او پیز کی ’مسلسل خلاف ورزی‘ پر سول ایوی ایشن اتھارٹی نے سترہ مئی کو ائربلیو کی دبئی سے پشاور پرواز کا اجازت نامہ منسوخ کر دیا“ تاہم مذکورہ نجی ائر لائن کے خلاف انتہائی محدود کاروائی کی گئی جبکہ ضرورت زیادہ بڑی کاروائی کی تھی کیونکہ خودغرضی کے اِس مظاہرے سے نہ صرف دیگر صحت مند مسافروں کی زندگیاں بلکہ براستہ پشاور کروڑوں پاکستانیوں کی ہزاروں افراد کی جانیں بھی خطرے میں ڈالی گئیں۔ ائرپورٹ حکام نے ریپڈ اینٹی جن ٹیسٹ نامی تجزئیات کے ذریعے جس بے قاعدگی کا نوٹس لیا ہے ماضی میں اِس کا استعمال انتہائی محدود پیمانے پر کیا جاتا رہا ہے۔ اِس فوری تجزیئے سے ایسے کورونا مریضوں کا پتہ لگایا جا سکتا ہے جو وبا کو چھپا رہے ہوں یا لاعلم ہوں لیکن اِس کھلم کھلا دھوکہ دہی پر ائربلیو کا مؤقف ہے کہ ”72گھنٹوں میں پی سی آر ٹیسٹ کے منفی رزلٹ کی بنیاد پر ٹکٹ جاری کئے گئے دلچسپ بات ہے کہ مذکورہ نجی ائرلائن کا پشاور کے علاوہ دیگر تمام ائرپورٹس پر کام کاج حسب معمول جاری ہے اور سطحی کاروائی پشاور ائرپورٹ پر 52مسافروں کے کورونا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد کی گئی ہے۔ موجودہ وبائی ہنگامی صورتحال میں اِس سے بڑی دشمنی کوئی دوسری نہیں ہو سکتی کہ کاروباری ادارے صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھیں اور اِس حکمت عملی سے قومی نقصان کو نظرانداز کر دیں۔