سلیم راز ۔۔۔

سلیم رازکے متعلق لکھنا ہم جیسے کم مایہ لوگوں کاکام نہیں اس کے لیے بہت مطالعہ ومشاہدے اور فہم کی ضرورت ہے تاہم اس سلسلہ میں برادرم میجر عامر کامختصر تبصرہ بہت جاندارمحسوس ہوا ناصر علی سیداور میجر عامر کے ساتھ دوران سفر ایک جگہ سڑک کے کنارے ایک چھپر نما ہوٹل میں قیام کیا میجر صاحب توحسب عادت معذرت کرکے چارپائی کی طرف لپکے اورہم کرسیوں پر جم گئے ہلکا پھلکا کھانا کھایا اور اس دوران چائے کا آرڈر دیاگیا سلیم رازصاحب کاذکرچھڑا ان کی شخصیت اور فن پر گفتگو شروع ہوئی تو میجر صاحب کہنے لگے کہ جہاں تک میں نے راز صاحب کو پڑھا اورسمجھاہے تووہ پختونوں کے دامن پر لگنے والے انتہاپسندی کے داغ دھونے میں مصروف رہے بقول میجر صاحب کہ جب نائن الیون کے بعد پختونوں کے حوالہ سے بدترین پروپیگنڈا شروع ہواتو تب سلیم رازجیسے قلم کے مجاہدمیدان میں اترے اور پوری دنیا کو بتانے لگے کہ جناب یہ جو چہرہ آپ کو بتایا اوردکھایا جارہاہے یہ میرا چہر ہ نہیں میر اچہرا تو بہت روشن اورمیرادامن بہت اجلا ہے اور پھر مرتے دم تک ان کایہ جہاد جاری رہا میجر صاحب کایہ مختصر اورجامع تبصرہ یقینا سلیم راز مرحوم کی آخری عمرکی کوششوں کو سامنے لانے کیلئے کافی ہے ویسے بھی اگر دیکھاجائے توراز صاحب روشن فکری کاچراغ لیے ساری عمر تنگ نظری اور نفرتوں کے خلاف برسرپیکاررہے وہ ایک لمحہ کیلئے بھی آرام سے نہیں بیٹھے بقول ناصر علی سیدجب کبھی ہمیں خبر ملتی کہ راز صاحب گھرپرہیں تو ہم فوراً فون کرکے ان کی صحت کادریافت کرتے کیونکہ راز صاحب صرف بیماری کی صورت میں ہی گھرمیں ہوتے بصورت دیگر وہ پیار کے سر بکھیرنے کیلئے ہمہ وقت پورے ملک میں گھومتے پھرتے ہمارا ان کے ساتھ تعلق زیادہ پرانا تو نہیں تھا مگر قلبی ضرور تھا سلیم راز سے پہلی ملاقات کوئی دس سال قبل ہوئی تھی اس کے بعد سے ان کے ساتھ رابطہ برقراررہا جس میں ہمار انہیں بلکہ سارا ان کاکمال اورمحبت تھی جب بھی پشاور آتے ضرور رابطہ ہوتا چند ماہ قبل کی بات ہے کہ میرے تایا بشیر احمد وفات پاگئے تھے ان دنوں خود سلیم رازصاحب بھی بیمار تھے اچانک سہ پہر کو ان کا فون آیا اورپتہ پوچھنے لگے ہماراخیال تھاکہ شاید مانسہرہ میں ہیں اس لیے کہنے لگے کہ جی بس وہیں سے دعا کیجئے آنے کی زحمت نہ کریں مگر کہنے لگے کہ میں پشاور پہنچ چکاہوں پتہ بتایا تو کچھ دیر بعد راز صاحب وارد ہوئے کافی کمزور تھے والد صاحب کے ساتھ بیٹھے رہے اپنی ایک کتاب بھی تحفتہً پیش کی راز صاحب کے ساتھ ایک گہرا تعلق یہ بھی رہاکہ آخری بار انکے کالم روزنامہ آج میں ہی شائع ہوئے تھے کیونکہ مرحوم عبد الواحد یوسفی صاحب کی خواہش پر انہوں نے چند سال قبل روزنامہ آج کیلئے لکھناشروع کیاتھا اگرچہ یہ سلسلہ پھر ان کی ناسازی طبع کے باعث پھر زیاد ہ نہیں چلا سلیم راز بلاشبہ نابغہ روزگار تھے پشتو اور اردودونوں میں لکھا اوربہت خوب لکھا بنیاد ی طورپر بائیں بازو کی سوچ کے حامل تھے اور اپنی سوچ پر آخری وقت تک مضبوطی کے ساتھ قائم رہے تاہم خود کوہر قسم کی انتہاپسندی سے دوررکھا کثیر الجہتی شخصیت کے حامل تھے وہ بیک وقت ایک ادیب،شاعر،صحافی،سیاسی کارکن اور انسانی حقوق کے علمبردار بھی تھے نرم خو،خوش مزاج اور خاکسارطبیعت کے حامل انسان تھے ہم نے ان کے ساتھ جب بھی ملاقات کی پہلے سے زیادہ شفیق پایا عام طورپرشعر اء  اور ادبا ء کے درمیان پیشہ ورانہ چپقلش  جاری رہتی ہے مگر سلیم راز نے خود اس قسم کے منفی طرز فکر سے ہمیشہ دوررکھا چنانچہ ہم نے ان کے منہ سے کبھی کسی کے متعلق کوئی منفی ذاتی تبصر ہ نہیں سنا دوسروں کے فن پر بات کرتے تھے تنقید بھی کرتے تھے مگر کبھی کسی کی ذات کے حوالہ سے غلطً سوچ نہیں اپنائی اوراسی نے ان کے قد کاٹھ کو بہت بلند کردیاتھا باچاخان،مولانا عبدالرحیم پوپلزئی،کاکاجی صنوبر حسین،خان عبدالولی خان،اورمیر غوث بخش بزنجو ان کے پسندید ہ سیاستدان تھے اسی سے ان بلند فکری کااندازہ لگایا جاسکتاہے 1998میں ان کی بیگم کا انتقال ہوا تو کہتے ہیں کہ راز صاحب پھوٹ پھوٹ کرروئے تھے جو ان کی حساسیت اور وفاداری کابھرپور اظہار تھا  اس سے قبل وہ جمال عبدالناصر،پنڈت جواہر لال نہرو،باچاخان اور قلندرمومندکے مرنے پر زاروقطار روئے تھے شریک سفر کی رخصتی کے بعدراز صاحب نے ادبی سیاحت کو زیادہ زوردینا شروع کردیا اگر ان کو پاکستان کی دنیائے ادب کاابن بطوطہ قراردیا جائے تو غلطً نہ ہوگا سترہ مئی کو وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے مگر اپنے فن اور اپنے کام کی وجہ سے وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔