دہشت گردی، قومی مفادات اور سیلف ڈیفنس دور جدید کی وہ اصطلاحات ہیں جن کی کوئی واضح تعریف ابھی تک وضع نہیں ہوسکی۔ ہر ملک اپنی پسند اور ضرورت کے مطابق ان اصطلاحات کی تعریف وضع کرتا ہے۔ دہشت گردی کو عالمی امن کیلئے پوری دنیا نے خطرہ تسلیم کرلیا ہے۔ سادہ الفاظ میں دہشت گردی سے مراد کسی ملک یا علاقے پر اس کی مرضی و منشا کے خلاف تسلط قائم کرنا، بے گناہ لوگوں کو اپنے مفادات کیلئے خوف و ہراس میں مبتلا کرنا، قتل عام کرنا اورکسی ریاست، قوم یا قبیلے کو جانی و مالی نقصان پہنچانا ہے۔ دنیا کی بڑی جمہوریہ کہلانے والی ریاستیں امریکہ اور بھارت دہشت گردی کی جوتشریح کرتی پیش کرتی ہیں وہ آزاد اقوام کیلئے ناقابل قبول ہیں۔ بھارت حق خود ارادیت اور بیرونی فوجی مداخلت کے خلاف ہتھیاراٹھانے والے کشمیریوں کو دہشت گرد قرار دیتا ہے جبکہ باقی دنیا کشمیریوں کو مظلوم، مقہور اور جبرواستبداد کا شکارسمجھتی ہے اور ان کی مزاحمتی تحریک کو اپنی حفاظت کا بنیادی حق قرار دیتی ہے۔ اسی طرح امریکہ اور اس کا طفیلی اسرائیل فلسطینیوں کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں جبکہ باقی دنیا فلسطینیوں کو مظلوم اور ان کی زمین پر ناجائز قبضہ کرنے والوں کو جارح اور ظالم قرار دیتی ہے۔ اسرائیل کا قومی ترانہ پڑھ لیں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس ناجائز ریاست کا نظریہ دہشت گردی پر مبنی ہے، یہ ترانہ عبرانی زبان میں ہے جس کا انگریزی میں لفظی ترجمہ کچھ یوں کیا گیا ہے۔
As long as there is a jewish soul in the hearts. yearing farward toward the east, our hope is not made yet. A thousand years dream on our land, the land of Zion ad Jerusalem. Let those who are our enemy shudder, let all the inhabitants of Egypt and Canaan tremble, let the inhabitants of Babylon (Baghdad) shudder, To loom over their skies, panic and terror from us. When we plant our spears in their chests, and we see their blood being shed, and their heads cut off.,Then we will be God,s chosen people where God willed.۔
اس ترانے کا اردو ترجمہ یوں بنتاہے۔”جب تک دل میں یہودی روح ہے یہ تمنا کے ساتھ مشرق کی طرف بڑھتا ہے ہماری امید ابھی پوری نہیں ہوئی۔ اپنی زمین پر ایک ہزار سال کا خواب، اپنے خوابوں کی دنیا یروشلم، ہمارے دشمن یہ سن کے ٹھٹھر جائیں، مصر اور کنعان کے سب لوگ لڑکھڑا جائیں بابلوں (بغداد)کے لوگ ٹھٹھر جائیں،ان کے آسمانوں پر ہمارا خوف اور دہشت چھائی رہے۔ جب ہم اپنے نیزے ان کی چھاتیوں میں گاڑھ دیں گے اور ہم ان کا خون بہتے اور ان کے سر کٹتے ہوئے دیکھیں گے۔ تب ہم اللہ کے پسندیدہ بندے ہوں گے جو اللہ چاہتا ہے“قومی ترانہ کسی ریاست کے بنیادی نظریے کا عکاس ہوتا ہے۔ اسرائیلیوں کے قومی ترانے میں اہل مصر، اہل کنعان اور اہل بغداد کے سینوں میں نیزے مارنے، ان کے سر کاٹنے اور خون بہانے کے جس عز م کا اظہار کیا گیا ہے۔ گذشتہ 73سالوں سے وہ اس نصب العین پر عمل پیرا ہیں۔ مسلمانوں کے قبلہ اول پر حملہ، صابرہ اور شتیلہ کے مہاجر کیمپوں میں فلسطینی خواتین اور بچوں کا قتل عام دنیا نہیں بھولی۔ اب اسرائیل نے غزہ سٹی، غرب اردن اور فلسطینی علاقوں میں قتل و غارت گری کا جو بازار گرم کررکھا ہے وہ اس کے دہشت گردانہ نظریات کی ترجمانی ہے اور امریکہ نے سلامتی کونسل میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف قرار داد ویٹو کرکے اور اسرائیل کو اپنے دفاع کیلئے اربوں ڈالر کے ہتھیار فراہم کرنے کا معاہدہ کرکے ثابت کردیا ہے کہ امریکہ کا نصب العین بھی دہشت گردی کا خاتمہ نہیں بلکہ اس کا فروغ ہے۔ اسی مقصد کیلئے امریکہ اور اس کے حواریوں نے نائن الیون کا ڈرامہ رچایا تھا۔ اسی نظریے کی بنیاد پر افغانستان،عراق،شام اور لیبیا پر لشکر کشی کی تھی۔امریکہ اور اسرائیل عالم اسلام میں ناچاقی اور بے اتفاقی کے بیج بوکر ان کو آپس میں لڑا کر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔یہی موقع ہے کہ عالم اسلام کو اپنے فروعی اختلافات کو پش پشت ڈال کر امت متحدہ بننے کے لئے عملی کام کرنا چاہئے یہی ان کی بقاء کا واحد راستہ ہے۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش گذشتہ چند عشروں سے زور پکڑ گئی ہے۔ دنیا میں جہاں بھی دہشت گردی کا واقعہ رونما ہوتا ہے اس کے تانے بانے مسلمانوں سے ملانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام امن و سلامتی، رواداری، برداشت، بھائی چارے اور محبت کا درس دیتا ہے۔ شاید یہ ہماری ہی کوتاہی ہے کہ ہم اسلام کا اصل چہرہ دنیا کو دکھانے میں ناکام رہے۔ اور خود ہماری کردار اور روزمرہ معمولات میں بھی مسلمانی کی جھلک نظر نہیں آتی۔ ہمارے کردار کی وجہ سے بھی دین اسلام پر لوگوں کا انگلیاں اٹھانے کا موقع ملتا ہے۔ افراط و تفریط ہر معاشرے میں موجود ہے۔ یہودیوں، عیسائیوں، بدھ مت کے پیروکاروں، ہندؤوں، سکھوں، آتش پرستوں اور کمیونسٹوں میں بھی میانہ رو اور انتہاپسند دونوں طبقے پائے جاتے ہیں۔ بعض ممالک میں انتہا پسندی کی ریاستی سطح پر سرپرستی کی جاتی ہے۔ بھارت اور اسرائیل اس کی تازہ مثالیں ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران نازیوں نے جرمنی میں یہودیوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا تھا۔ انہیں الیکٹرک چیمبرز میں بٹھا کر سزائے موت دی جاتی تھی۔ انہیں تپتے توے پر کھڑا کیاجاتا ہے۔ ہٹلر کا یہ قول مشہور ہے کہ انہوں نے چند یہودیوں کو اس لئے زندہ چھوڑ دیا تاکہ آنے والی نسلوں کو ان کے کردار کی وجہ سے پتہ چل سکے کہ ہٹلر نے ان کے ساتھ سختی کا برتاؤ کیوں کیا تھا۔ آج نازی لیڈر کا یہ قول حرف بہ حرف سچائی پر مبنی دکھائی دیتا ہے۔