اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ نہیں ہو رہی کیونکہ جنگ وہاں ہوتی ہے جہاں دونوں فریق برابری کے ساتھ ایک دوسرے کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ فلسطین کے عوام اسرائیل کی ہر اینٹ کا جواب پتھر سے دے رہے ہیں۔ اُن کی آنکھوں میں آنسو اور آسمان کو چیرتی ہوئی فریادیں ہیں کہ آخر ہمیں کس جرم کی سزا مل رہی ہے اور یہ سزا کب تک جاری رہے گی!؟ مسئلہ صرف فلسطین کا نہیں بلکہ یہی صورتحال کشمیر کی بھی ہے جہاں کے مظلوم انسان نہ تو باقی خوشحال وآزاد دنیا سے شکوہ کناں ہیں اور نہ ہی انہیں مسلمان ممالک سے کسی غیرمعمولی حمایت کی اُمید ہے۔ ہاتھوں میں پتھروں کا ہتھیار‘ آنکھوں میں آزادی کے خواب جبکہ چہروں پر دنیا کیلئے طنزیہ مسکراہٹ میں چھپا پیغام ہے کہ دنیا دیکھ لے کہ مزاحمت تو یوں بھی کی جا سکتی ہے۔ جنگ تو خالی ہاتھ بغیر میزائلوں‘ ٹینکوں اور ایٹم بم کے بھی لڑی جا سکتی ہے! فلسطین کی فوج کے ننھے سپاہی‘ نوجوان لڑکیاں‘ بہادر لڑکے‘ حوصلہ مند بوڑھے اور توانا جذبوں کی حامل مائیں‘ بیٹیاں‘ عورتیں ہر روز پہلے سے زیادہ بڑی تباہی کا سامنا کرتی ہیں اور اُن کے خاموش سوال پونے دو ارب مسلمانوں کے ضمیر پر تازیانے برساتے ہیں کہ ناتواں اور تنہا سہی مگر دیکھو‘ جنگ تو یوں بھی لڑی جا سکتی ہے۔ گذشتہ قریب آٹھ دہائیوں سے اب تک فلسطین اپنے حق خود ارادیت کی جدوجہد میں ہے۔ پاکستان کے ساتھ فلسطینیوں کی آرزوئیں کشمیر کی صورت جڑی ہیں۔ فلسطینی کشمیریوں کے ذریعے پاکستان کی شہ رگ ہیں اور اس رشتے کا آغاز خود بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ نے کیا تھا۔ بانی پاکستان ہوں یا علامہ اقبال‘ فلسطین کیلئے پاکستان کے وجود میں آنے سے لے کر اب تک قومی قیادت اسرائیل کے خلاف اور فلسطین کے ساتھ کھڑی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطین کے عوام کم ازکم پاکستان کی طرف اُمید سے ضرور دیکھتے ہیں اور اب تک پاکستان کی حکومتوں اور عوام نے اُن امیدوں کو توڑا نہیں ہے۔ قائد اعظمؒ نے اپنی رحلت سے قبل خارجہ پالیسی کی بنیاد ہی اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے پر رکھی۔ قائداعظم نے ایک نہیں کئی مواقعوں پر فلسطین کے حق میں اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف بیانات دیئے بالخصوص چھبیس دسمبر1938ء کو مسلم لیگ کے اجلاس (پٹنہ) سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظمؒ نے کہا ”مسلمانان برصغیر اپنے عرب بھائیوں کی جدوجہد آزادی برائے خود مختار ریاست کے معاملے میں ان کی مدد سے ہرگز گریز نہ کریں گے۔تاہم اس وقت ستاون اسلامی ملکوں کی حکومتوں اور اسلامی ممالک تعاون تنظیم (او آئی سی) نے بھی محض مذمت جاری کرنے پر ہی اکتفا کیا ہے فلسطین سے آنے والے مناظر دل ہلا دینے والے ہیں۔ اگر ہم یہ سمجھیں کہ روتی بلکتی ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھتی ہوئی ایک دس سالہ بچی کی پکار کہ ”آخر ہمارا قصور کیا ہے؟“ ”میں ڈاکٹر بن کر اپنے لوگوں کی خدمت کرنا چاہتی ہوں کیا اب ایسا ممکن ہو پائے گا؟ پاکستان کی پارلیمان میں اِس معصوم فلسطینی بچی کے بیان کا تذکرہ قائد حزب اختلاف اور وزیرخارجہ نے بیانات میں کر کے ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان کی قیادت دیگر مسلم ممالک سے مختلف سوچ رکھتی ہے اور اُس کے فلسطین مذمتی بیانات سے بڑھ کر اہم ہے یقینا فلسطینیوں کی حمایت کیلئے کسی کا مسلمان ہونا ضروری نہیں بلکہ درد دل ہونا ضروری ہے۔