پشاور کہانی: چڑیا گھر۔۔۔۔۔

پشاور ہائی کورٹ (عدالت عالیہ) نے ’چڑیا گھر‘ میں جانوروں کو دی جانے والی سہولیات اور گزشتہ چھ ماہ میں ہلاک ہونے والے جانوروں کی تفصلات طلب کی ہیں جبکہ زیرسماعت مقدمہ یہ ہے کہ پشاور کے چڑیاگھر میں ایسے جانوروں کو رکھا گیا ہے جن کیلئے پشاور کی آب و ہوا (موسمی درجہ حرارت) موزوں نہیں اور ایسی شکایات بھی ہیں کہ جانوروں کی خاطرخواہ دیکھ بھال اور اُن کی خوراک کا بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ مقدمے کی سماعت چیف جسٹس قیصر رشید خان اور جسٹس سیّد ارشد علی کر رہے تھے جنہوں نے چڑیا گھر کے نگران (ڈائریکٹر) سے اِس بارے بھی استفسار کیا کہ ایسے جانوروں کی تحریری فہرست عدالت کو فراہم کی جائے جن کیلئے پشاور کا ماحول سازگار نہیں۔ اُمید ہے کہ مقدمے کی آئندہ سماعت (سترہ جون دوہزاراکیس) پر اُن اہلکاروں کے نام بھی عدالت کو فراہم کئے جائیں گے جن کی غفلت کے باعث چڑیا گھر کے کئی جانور ہلاک ہو چکے ہیں۔ عدالت ِعالیہ نے ’چڑیا گھر‘ کے نگران کو غفلت کے مرتکب اہلکاروں کے نام فراہم کرنے کی ہدایات جاری کیں جو اپنی نوعیت میں ’سادگی کا مظاہرہ‘ ہے کیونکہ جانوروں کی یکے بعد دیگرے (وقفوں وقفوں سے) ہلاکتوں پر الگ الگ محکمانہ تحقیقات کی گئیں اور ہر مرتبہ قصوروار جانوروں ہی کو قرار دیا گیا بصورت دیگر چڑیا گھر کے ایک نہیں کئی ڈائریکٹرز معطل ہونے کے بعد نوکریوں سے برخاست ہو چکے ہوتے!چڑیا گھر میں جانوروں سے روا رکھے جانے والے ’بدترین سلوک‘ سے متعلق سول سوسائٹی کے 24 اراکین بشمول ڈاکٹر علی جان‘ ڈاکٹر عادل ظریف‘ جہان مہنمد اورنگزیب‘ رخسانہ قلی خان خٹک‘ فرزانہ خان وسیم و دیگر نے مقدمہ دائر کر رکھا ہے اور چاہتے ہیں کہ 1: پشاور کا ’چڑیا گھر‘ عالمی معیار کے مطابق ہو۔2: چڑیا گھر کے جن باسیوں کیلئے پشاور کی آب و ہوا (بالخصوص) موسم موافق نہیں اُنہیں آبائی علاقوں یا دیگر موافق چڑیا گھروں کو بھیجا جائے۔ 3: مزید جانوروں کو چڑیا گھر منتقل نہ کیا جائے۔ اِن نکات کے جواب میں چڑیا گھر انتظامیہ کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ جانوروں کی صحت اور علاج معالجے کیلئے مستند معالجین کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں اور چڑیا گھر کی آب و ہوا موزوں رکھنے کیلئے بھی اقدامات کئے گئے ہیں تاہم جانوروں کی آبادی میں اضافہ اُن کے ہاں بچوں کی پیدائش سے ہوا ہے اُنتیس ایکڑ پر پھیلا پشاور کا چڑیا گھر (پلوسی روڈ‘ یونیورسٹی ٹاؤن) اپنی ذات و ساخت میں عجوبہ ہے‘ جسے عوام کیلئے بارہ فروری دوہزاراٹھارہ کے روز کھولا گیا اور یہاں 70 اقسام کے جانور رکھے گئے۔ کورونا وبا سے قبل چڑیا گھر کی سیر کیلئے ہر روز قریب پانچ ہزار لوگ آتے تھے تاہم کورونا وبا کے دوران یہ تعداد کم ہو کر دو سے ڈھائی ہزار رہ گئی۔ پشاور کا چڑیا گھر پاکستان کے دیگر شہروں میں قائم چڑیا گھروں سے رقبے اور جانوروں کی تعداد کے لحاظ سے بڑا ہے لیکن صرف رقبہ زیادہ ہونا کافی نہیں بلکہ جانوروں کی زندگی سب سے اہم ہے درحقیقت پشاور چڑیا گھر کو جلد بازی میں بنایا گیا اور کسی چڑیاگھر کیلئے جس سرسبز ماحول کی ضرورت ہے‘ اُسے مہیا کرنے سے پہلے وہاں جانور منتقل کر دیئے گئے جن کیلئے پشاور کی چلچلاتی دھوپ اور حبس ناقابل برداشت تھے۔ اصولاً چڑیا گھر قائم ہونے سے قبل وہاں جانوروں کیلئے علاج گاہ بنائی جانی چاہئے تھی لیکن سالہا سال کے بعد بھی جانوروں کے علاج معالجے کیلئے عارضی (ایڈہاک) بنیادوں پر انتظامات کئے جاتے ہیں۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ پشاور ایک میدانی علاقہ ہے جو کسی بھی طرح چڑیا گھر کے موزوں نہیں بالخصوص ایسے جانور جو سرد آب و ہوا والی جگہوں سے یہاں منتقل ہوئے ہیں۔ چڑیاگھر کا افتتاح فروری 2018ء میں ہوا تھا اور تب سے آج تک ہر چند ہفتوں یا مہینوں کے بعد کسی نہ کسی جانور کے مرنے کی خبر آتی رہتی ہے‘ اِن مرنے والے جانوروں میں برفانی چیتا‘ زرافہ‘ زیبرا اور ہرن جیسے نایاب نسل کے جانور شامل ہیں۔ چڑیاگھر پشاور سے متعلق عدالت عالیہ کا فیصلہ جلد یا بدیر اِس اصولی مؤقف کی جیت ثابت ہوگی کہ انسانوں کیلئے ’ہم زمین مخلوقات‘ کی زندگیاں اور کرہئ ارض کا حیاتیاتی تنوع بھی یکساں اہمیت کا حامل ہے اور اگرچہ چڑیا گھر جیسا غیرمنطقی جواز موجود ہے لیکن اِنسان اِن دونوں کو نقصان پہنچانے کا قانونی اختیار نہیں رکھتا۔