سات سمندر پارزمبابوے سے خبر آئی ہے کہ وہاں کے ایک شخص نے16شادیاں کی ہیں جن سے اب تک ان کے 151 بچے پیدا ہوئے ہیں تمام مائیں اور بچے ایک ہی گھر میں ہنسی خوشی رہتے ہیں۔66 سالہ شخص سہیک نیندورو کی خواہش ہے کہ وہ 100شادیاں کرے اور اس کے 1000بچے ہوں۔کہتے ہیں کہ انسان کی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں مگر خواہشات کی تکمیل کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ ایک خواہش کی تکمیل پر دل میں کئی نئی خواہشیں انگڑائی لیتی ہیں۔ شاعر نے انسان کی اسی جبلت کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”ہزاروں خواہشیں ایسی، کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔ بہت نکلے میرے ارمان، مگر پھر بھی کم نکلے“ڈیڑھ سو سے زائد بچوں کے باپ نے انکشاف کیا ہے کہ وہ کوئی نوکری نہیں کرتے نہ ہی اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں ان کی کل وقتی ملازمت اپنی 16 بیویوں کا خیال رکھنا ہے۔ ان کے اپنے بچے اور بیویوں کے بچے انہیں تحفے تحائف اور گھر کا خرچہ دیتے رہتے ہیں۔ مسہیک نے اپنی ازدواجی زندگی 1983ء میں شروع کی تھی اور جب تک سانسوں کی ڈور چلتی ہے تب تک منصوبے پر عمل درآمد جاری رکھنے کا عزم رکھتے ہیں۔ فولادی جگر کے حامل شخص کا کہنا تھا کہ انہیں اپنے متعدد ازدواجی تجربات پر فخر ہے وہ اپنی ہر بیوی کے ساتھ اس کی عمر کے مطابق برتاؤ کرتے ہیں چھوٹی عمر کی بیویوں سے ویسا برتاؤ نہیں کرتے جیسا بڑی عمر کی بیویوں کے ساتھ رکھتے ہیں۔ ان کی ہر بیوی روزانہ ان کے لئے کھانا پکاتی ہے لیکن وہ صرف وہی کھانا کھاتے ہیں جو مزیدار ہو۔شادی پر اپنی تمام بیویوں سے وعدہ لیا تھا کہ وہ جب بھی ان کا کھانا واپس کریں گے تو وہ ناراض نہیں ہوں گی۔ زمبابوے کوئی ترقی یافتہ ملک نہیں ہے۔ ہمارے زیادہ ترلوگ زمبابوے کی کرکٹ ٹیم کے حوالے سے اس ملک سے متعارف ہیں۔ اور ان کی کرکٹ ٹیم سے وہاں کے لوگوں کے معیاری زندگی کا بھی بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔ وہاں غربت کی شرح پاکستان سے زیادہ ہے۔ اس کے باوجود ڈیڑھ درجن کے قریب بیویاں اور ڈیڑھ سو سے زائد بچے پالنا دل گردے کا کام ہے۔ موصوف ابھی سترھویں بیوی کی تلاش میں ہے۔ ہمارے ہاں ایک شادی کرنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ہمارے بہت سے جاننے والے ایسے ہیں جو سر پر سہرا سجنے کی آس لئے برسوں سے بیٹھے ہیں بالوں میں چاندی بھی نمایاں ہونے لگی ہے مگر مراد بر آتی نظر نہیں آتی۔اولاد کی اچھی تربیت، کردار سازی، تعلیم، صحت اور دیگر ضروریات کا خیال رکھنا بھی والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے۔