ہر کچھ عرصہ کے بعد اس موضوع پر لکھنے کامقصد بعض لوگوں کے ضمیر پر دستک دیناہے جو بدقسمتی سے اس ملک کے پالیسی ساز ہیں یہ الگ بات ہے کہ ایسی تمام کوششیں ناکام ہی رہیں کس قدر افسوس کامقام ہے کہ ہمارے ہاں سب سے زیادہ کھلواڑ شعبہ تعلیم کے ساتھ ہی ہوتارہاہے کیونکہ ہم نے اس میدان میں قومی اور مادری زبانوں کے ساتھ جو رویہ اختیار کیاہواہے وہ انتہائی بے حسی پر مبنی ہے کیونکہ ہم نے انگریزی کو زبردستی مسلط کردیاہواہے حالانکہ دنیا کے تمام ماہرین لسانیات اور ماہرین تعلیم کا متفقہ نقطہ نظر ہے کہ بچوں کو بنیادی تعلیم اس کی مادری زبان میں دی جانی چاہئے۔ سائنس نے بھی یہ ثابت کیا ہے کہ بچوں کی ذہن سازی میں مادری زبان کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں بنیادی تعلیم کا ذریعہ مادری زبان ہے لیکن یہ المیہ ہے کہ ہمارے ملک میں انگریزی میڈیم سکولوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی رہی ہے۔آزادی کے بعد حکومت کی طرف سے نیم دلانہ طورپریہ کوشش ضرور شروع ہوئی کہ ملک کے بنیادی سکولوں میں قومی زبان کو فروغ ملے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس پرصد فیصد عمل نہیں ہوا۔ جہاں تک ملک کی دیگر علاقائی زبانوں کا سوال ہے تو اگر وہ اب تک زندہ ہیں تو صرف اور صرف اس کے چاہنے والوں کی جد و جہد کا ثمرہ ہے۔ ورنہ انگریزیت کے نشہ نے علاقائی زبان کے فروغ کے تمام راستے محدود کر دیئے تھے۔ اس انگریزیت نے دیگر علاقائی زبانوں کے ساتھ ساتھ خود قومی زبان اردو کو بھی بہت نقصان پہنچایا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ قومی زبان ہونے کی وجہ سے مجبوراً اردو زبان کی تعلیم کے چراغ کو بجھایا تو نہیں گیا ہے لیکن مدھم ضرور ہو گیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر واقعی قومی سطح پر پرائمری سکولوں میں بذریعہ مادری زبان تعلیم کو فروغ ملتا ہے تواس سے نہ صرف علاقائی زبانوں کو پھولنے پھلنے کا ماحول سازگار ہوگا بلکہ قومی زبان کیلئے بھی راستہ ہموار ہوگا یقینا اردو زبان کیلئے بھی مٹی نم ہوگی۔بین الاقوامی ادارہ یونیسکوبھی لسانی تحفظ کیلئے مادری زبان کو فروغ دینے کی وکالت کرتا رہا ہے کیونکہ تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ ہر سال دنیا کی کئی زبانیں دم توڑ رہی ہیں۔ جہاں تک اپنے وطن عزیزکاتعلق ہے تو یہ کثیر التہذیب کے ساتھ ساتھ کثیر اللسان بھی ہے۔ اسلئے سرکاری سطح پر یہ ایک بڑی مشکل بھی ہے کہ قومی سطح پر علاقائی زبان میں تعلیم کا اہتمام ہو تاہم اس کامطلب یہ بھی نہیں کہ اس حوالہ سے آنکھیں بند کردی جائیں یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اگر علاقائی زبان میں تعلیم کے نظم کو مستحکم کیا جاتا ہے تو خود بخود مادری زبان کو بھی استحکام حاصل ہوگا۔یہاں یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ ہم انگریزی زبان کی تعلیم کے مخالف ہیں ہم جیسے لوگ بنیادی اور ثانوی سطح تک اپنی مادری زبان میں تعلیم دینے کے پرزور حمایتی ہیں کیونکہ مادری زبان کے ذریعہ نہ صرف نئے علوم سیکھنے میں آسانی ہوتی ہے بلکہ بچوں میں ذہنی وسعت بھی پیدا ہوتی ہے۔ انگریزی کی تعلیم بھی ضروری ہے کہ یہ ایک بین الاقوامی رابطے کی زبان ہے اور عا لمگیریت کے بعد روزگار کے شعبے میں اس کی اہمیت بڑھی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مادری زبان کی اہمیت کم ہوئی ہے بلکہ سچائی تو یہ ہے کہ مادری زبان کے ذریعہ تعلیم حاصل کرنے والے دوسری زبانوں پر بھی باآسانی عبور حاصل کر لیتے ہیں۔ یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ جن بچوں کی تعلیم مادری زبان کے ذریعہ ہوتی ہے وہ اعلیٰ درجے کے مضامین کو سمجھنے میں دیگر طلبہ سے کہیں زیادہ کامیاب ہوتے ہیں کیونکہ ان کی ذہنی پختگی کا سامان انھیں پہلے ہی میسر ہو چکا ہوتا ہے یہ بجاکہ زبانوں کی ترقی وترویج کے لئے سرکاری سرپرستی ضروری ہواکرتی ہے لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ صرف حکومت کی مراعات ہی سے کوئی زبان نہیں پھولتی پھلتی ہے بلکہ اس زبان کے دلداہ لوگ ہی حوصلے اور عزم کی بدولت اس زبان کی مشکلیں آسان ہوتی ہیں وطن عزیز میں کتنی ہی زبانیں ایسی ہیں کہ ان زبانوں کے لوگوں نے اپنے گھروں میں بچوں کو اپنی اپنی زبانیں زندہ رکھنے کے مواقع فراہم کئے اور سرکاری مراعات نہ ہونے کے باوجود یہ زبانیں زندہ ہیں پاکستان کی قومی زبان اردوہے جبکہ بڑی علاقائی زبانوں کو سرکاری زبان کی حیثیت حاصل ہے تاہم ان کو شعبہ تعلیم سے عملاً بیدخل کرکے رکھ دیاگیاہے جس کاخمیازہ آنے والی نسلیں بھگت رہی ہیں اس لئے ضروری ہے کہ پرائمر ی کی سطح پرتعلیم کاذریعہ صرف اورصرف بچوں کی مادری زبان ہونی چاہئے دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک نے اس پرعمل کرکے ہی ترقی کی ہے روس،چین،جاپان،کوریا،ملائیشیاء،فرانس،جرمنی آخر کس کس کی مثال دی جائے ان سب سے ترقی کی ہے تو مادری زبانوں کو ذریعہ تعلیم بناکر ہی کی ہے اس لئے ہمیں بھی اب سیدھی راہ پر آجاناچاہئے۔