پہلا اقدام: خیبرپختونخوا قانون ساز ایوان نے 14 جنوری 2020ء کے روز انسداد گداگری قانون منظور کیا تھا جس کے تحت خواتین اور بچوں سے گداگری بھی قابل سزا جرم قرار دیا گیا یعنی اگر کوئی شخص گداگری کا دھندا کرواتے ہوئے پکڑا گیا تو اُسے 5 لاکھ روپے تک جرمانہ یا ایک سال قید کی سزا دی جائے گی۔ دوسرا اقدام: خیبرپختونخوا حکومت نے گداگری کے اِنسداد کے لئے ’دارالکفالہ‘ نامی خصوصی مراکز قائم کئے جہاں گداگروں کو بھیجا جائے گا۔ اِس سلسلے میں مجسٹریٹ معائنہ کار ہوں گے جو گداگروں کو ’دارالکفالہ‘ بطور سزا بھیجنے کے پابند ہوں گے جبکہ ’دارالکفالہ‘ میں گداگروں اُور بے گھروں کے قیام و طعام کے علاؤہ اُن کی تعلیم و تربیت کا بھی انتظام کیا جائے گا تاکہ وہ کسی پر بوجھ بننے کی بجائے اپنی مالی کفالت خود کرنے کے قابل ہوسکیں۔ مجسٹریٹ کی طرح پولیس کو بھی اختیار دیا گیا کہ وہ گداگروں کو گرفتار کر کے ’دارالکفالہ‘ انتظامیہ کے حوالے کریں جہاں گداگر اُور بے گھر انتظامیہ کی تسلی و تشفی تک قیام کریں گے اُور جب اِس بات کا یقین ہو جائے گا کہ وہ تعلیمی قابلیت یا ہنرمندی کے ذریعے اپنی ضروریات کے لئے مالی طور پر خودکفیل ہو چکے ہیں تو ایسے افراد کو ’دارالکفالہ‘ سے رخصت کی اجازت دی جائے گی بصورت دیگر اُنہیں چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے دارالکفالہ کی چاردیواری کے اندر رہنا ہوگا جہاں اُن کی سرگرمیاں محدود رہیں گی۔ تیسرا اقدام: خیبرپختونخوا حکومت نے 14 جنوری 2020ء ہی کے دوران کام کاج کی جگہوں پر ہراسگی (workplace harassment) سے متعلق ایک قانون بھی منظور کیا جس کا بنیادی مقصد کام کاج کے مقامات پر ملازمین بالخصوص خواتین کو کسی بھی طور ہراساں کے واقعات کی روک تھام کرنا تھا اُور اِسی قانون کے تحت تعلیمی اداروں میں ہونے والی ہراسگی کے بارے میں طلبا ء یا طالبات کی شکایات سننے کے لئے محتسب مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ مذکورہ تینوں اقدامات (قانون سازی کے مراحل) طے ہونے کے بعد اِن پر عمل درآمد ہونا تھا لیکن صورتحال جوں کی توں برقرار نظر آتی ہے کہ خیبرپختونخوا کے طول و عرض بالخصوص پشاور میں گداگروں کے گروہ گلی گلی اُور بازاروں حتیٰ کہ مساجد کے باہر اپنا کاروبار پھیلائے دکھائی دیتے ہیں لیکن اِس کی روک تھام کے لئے مجسٹریٹ اُور پولیس اہلکار کاروائی نہیں کرتے۔گداگری منظم پیشہ ہے۔ موسم گرما کے دوران خیبرپختونخوا کے بالائی (پہاڑی) علاقوں میں ایسے گداگروں کے ہجوم دکھائی دیتے ہیں‘ جو میدانی علاقوں میں گرمی کی شدت سے بچنے اُور تفریح کے لئے سیاحتی مقامات کا رخ کرتے ہیں اُور اِن کے باعث ملکی و غیرملکی سیاح پریشانی (کوفت) کا بھی شکار رہتے ہیں۔ گداگری کی صرف قانونی ہی نہیں بلکہ معاشرتی اُور ہر سطح پر حوصلہ شکنی ہونی چاہئے کیونکہ یہ صرف قانونی یا سماجی ہی نہیں بلکہ انسانی مسئلہ (المیہ) بھی ہے کہ گداگری میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے اُور کوئی ایسا بازار یا شہر کا حصہ نہیں جہاں گداگر نہ پائے جاتے ہیں۔ پشاور شہر کا معمول رہا ہے اُور کئی دیگر شہروں کی طرح یہاں کی روایت رہی ہے کہ جمعرات کے روز خواجہ سرا یہاں کے بازاروں میں دعائیں تقسیم کرتے دکھائی دیتے تھے لیکن آج صورتحال مختلف ہے کہ خواجہ سراؤں کے مقابلے دیگر ایسے گداگروں کی تعداد زیادہ ہے جو مضبوط قدکاٹھ کے باوجود ہاتھ پھیلائے نظر آتے ہیں۔ گداگری کا ایک محرک منشیات بھی ہیں‘ جس کی وجہ سے چھوٹے بڑے جرائم (راہزنی اُور چوریاں) معمول بن چکے ہیں۔ پشاور کے گلی کوچوں میں نالے نالیوں پر لوہے سے بنی ہوئی جھالیں اُور ڈھکن چوری کرنے کا دھندا بھی عروج پر ہے جبکہ منشیات کے عادی گداگری کرتے ہوئے ایک ایسے معاشرے کی تصویر پیش کر رہے ہیں‘ جس کا عکس اُور ساکھ دونوں متاثر ہیں۔ اِس مرحلہئ فکر پر ’محکمہئ سماجی بہبود‘ کو زیادہ محنت کرنا پڑے گی تاکہ ’دارالکفالہ‘ کے قیام کا مقصد اُور اِس سے جڑے قوانین (جملہ اقدامات) کے تقاضے پورے ہو سکیں۔ رواں ہفتے (اُنیس مئی) سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ نے پشاور کے مختلف علاقوں سے 40 گداگروں کو گرفتار کیا ہے جن میں خواتین‘ بچے اُور بزرگ افراد شامل ہیں جن کے خلاف یونیورسٹی ٹاؤن پولیس سٹیشن میں مقدمہ درج کیا گیا اُور اِس بارے میں جاری کئے گئے بیان کے مطابق گرفتار کئے گئے گداگروں مختلف ہنر سکھائے جائیں گے تاہم ’دارالکفالہ‘ کے وسائل محدود ہیں اُور اِس مقصد کے لئے سالانہ بجٹ میں مختص مالی وسائل بھی واجبی ہیں۔ خیبرپختونخوا کے فیصلہ سازوں کو اپنے ہی ہی بنائے ہوئے قوانین کا احترام کرتے ہوئے نئے مالی سال (2021-22ء) کے بجٹ میں ’دارالکفالہ‘ کے لئے مختص مالی وسائل سے حکومت کی سنجیدگی یا عدم دلچسپی عیاں ہو گی۔