خیبرپختونخوا حکومت کورونا وبا کو ’بے قابو‘ ہونے سے روکنے کیلئے بڑے پیمانے پر ویکسینیشن کا آغاز کرنے جا رہی ہے اور اِس سلسلے میں پہلا ویکسینیشن مرکز خیبر میڈیکل یونیورسٹی (پچیس مئی)‘ دوسرا ویکسینیشن سنٹر نشتر ہال (چھبیس مئی) جبکہ چارسدہ‘ مردان اور سوات کے (انتہائی متاثرہ) اضلاع میں ایسے مراکز اگلے ہفتے قائم کئے جائیں گے۔ باعث اطمینان ہے کہ قومی سطح پر کورونا وبا پر نظر رکھنے اور اِس کے علاج معالجے و روک تھام کے ئے بنائے گئے خصوصی شعبے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر نے خیبرپختونخوا کو اِس بات کی یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ انتہائی متاثرہ اضلاع (پشاور‘ چارسدہ‘ مردان اور سوات) کیلئے وافر مقدار میں ویکسین فراہم کرے گی۔ بڑے پیمانے پر ویکسینیشن مراکز میں بیک وقت بارہ سے پندرہ افراد کو ویکسین لگائی جا سکے گی جبکہ حکمت عملی کے تحت پندرہ جون سے یومیہ ساٹھ ہزار اور یکم جولائی سے خیبرپختونخوا میں یومیہ ایک لاکھ لوگوں کو ویکسینز لگائی جائیں گی۔ فی الوقت خیبرپختونخوا کے 35 اضلاع میں 482 ویکسینیشن مراکز قائم ہیں جہاں تین فروری سے جاری ویکسینیشن کے عمل میں اب تک 5 لاکھ لوگوں کو ’کورونا ویکسین‘ کے ذریعے بیماری کی اُس حالت سے محفوظ کر لیا گیا ہے جو نہایت ہی تکلیف دہ ہوتی ہے اور موت کا باعث بنتی ہے۔خیبرپختونخوا میں کورونا ویکسینیشن کے عمل کو تحقیق سے بھی جوڑنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اِس سلسلے میں جن لوگوں کو ویکسین لگائی جائے گی اُن کی صحت اور ویکسین لگنے کے بعد رونما ہونے والی جسمانی تبدیلیوں پر نظر رکھی جائے گی تاکہ ویکسین کے مؤثر ہونے کے بارے میں اعدادوشمار مرتب کئے جا سکیں۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوگا کہ کورونا ویکسین کے بارے میں خدشات و تحفظات کے ازالے کو بھی ویکسینیشن مہم کا حصہ بنایا جا رہا ہے علاوہ ازیں خصوصی ویکسینیشن مراکز میں کورونا تجزیہ (پی سی آر ٹیسٹ) کرنے کی سہولت بھی ایک چھت تلے فراہم کی جائے گی۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ کورونا وبا کے خلاف جسمانی مدافعت حفاظتی تدابیر (ایس اُو پیز) اور ویکسین سے زیادہ مؤثر انداز میں کام کر رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ انتہا درجے کی بے احتیاطی کرنے کے باوجود بھی کورونا وبا اُس تیزی سے نہیں پھیلا اور نہ ہی اُس حد تک جان لیوا ثابت ہو رہا ہے کہ جیسا بھارت میں دکھائی دیتا ہے جہاں یومیہ اوسط اموات چار سے پانچ ہزار تک جا پہنچی ہیں۔ کورونا وبا کے خلاف اِس کامیابی میں صرف پاکستان تنہا نہیں بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں کورونا وبا وہاں پائی جانے والی جسمانی مدافعت ہی کی وجہ سے گہرا وار کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہی تاہم اِس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ کورونا وبا کا وجود دنیا سے ختم نہیں ہو گا اور اِس کی موجودگی کے ساتھ انسانوں کو معمولات زندگی بحال کرنے کی کوشش کرنا ہوگی جس کے لئے سائنسی بنیادوں پر تحقیق کی خاصی اہمیت ہے اور اگر وسیع پیمانے پر کورونا ویکسینیشن سے فائدہ اُٹھانے والے تعاون کریں تو کورونا وبا کی تخریب کاریوں پر بڑی حد تک قابو پانا ممکن ہے۔پاکستان کی کل آبادی 22 بائیس کروڑ میں 18 سال سے زائد عمر کی آبادی 11 کروڑ ہے جنہیں آئندہ آٹھ ماہ میں ویکسین لگانے کیلئے قومی سطح پر ویکسینیشن میں تیزی لائی جا رہی ہے۔ اگرچہ خیبرپختونخوا کی آبادی ملک کے دیگر دو صوبوں سے کم ہے لیکن یہاں کورونا وبا کی شرح آبادی کے تناسب سے زیادہ ہے جسے روکنے کیلئے خیبرپختونخوا میں وسیع پیمانے پر ویکسینیشن کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اِس فیصلے کا دوسرا محرک یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے سرکاری ہسپتالوں سے ویکسین کیلئے رجوع کرنے میں ہچکچاہٹ پائی جاتی ہے اور عمومی تاثر یہ ہے کہ ہسپتال کورونا وبا کے مراکز ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ویکسینیشن سنٹرز سے رجوع نہیں کیا جاتا اور یہی وجہ ہے کہ وسیع پیمانے پر ویکسینیشن مراکز ہسپتالوں کی بجائے دیگر جگہوں پر قائم کئے جا رہے ہیں۔کورونا خالصتاً ایک ایسا وبائی مسئلہ ہے جو کم آمدنی رکھنے والے طبقات کیلئے زیادہ خطرہ ہے جن کی جسمانی قوت مدافعت کم یا غیرمعیاری خوراک کی وجہ سے کمزور ہوتی ہے۔ ایسے افراد کنبے کے واحد کفیل ہوتے ہیں اُن کی بیماری یا موت سے پورا خاندان متاثر ہوتا ہے۔ قومی اور صوبائی فیصلہ سازی میں ایسے طبقات (گھرانوں) کو مدنظر رکھتے ہوئے اِس پابندی سے استثنیٰ بارے بھی سوچ بچار ہو رہی ہے کہ جن لوگوں کے پاس قومی شناختی کارڈز نہیں اُنہیں بھی ویکسین لگائی جائے۔ وسیع پیمانے پر ویکسینیشن مہم کے دوران کورونا سے انتہائی چار اضلاع (پشاور‘ چارسدہ‘ مردان اور سوات) کے علاوہ ڈیرہ اسماعیل خان‘ کوہاٹ‘ بنوں‘ تربیلا‘ مانسہرہ اور ایبٹ آباد (جلال بابا آڈیٹوریم) میں ویکسینیشن مراکز قائم کئے جائیں گے اور یہ سبھی مراکز ہسپتالوں کی بجائے پبلک مقامات پر ہوں گے تاکہ بنا کسی خوف عوام کی بڑی تعداد اِن سے رجوع کر سکے۔ فی الوقت یومیہ اوسطاً چالیس ہزار لوگوں کو کورونا ویکسین دی جا رہی ہے اور خیبرپختونخوا میں کورونا کے باعث یومیہ ہلاکتوں کی تعداد چوبیس سے زیادہ جبکہ نئے متاثرین کی تعداد یومیہ چارسو ہے‘ اِن میں پشاور سرفہرست جبکہ ایبٹ آباد‘ مردان‘ مانسہرہ‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ سوات‘ کوہاٹ‘ چارسدہ اور بنوں میں بالترتیب کورونا مریضوں کی تعداد میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے جبکہ خیبرپختونخوا میں کورونا کے معلوم متاثرین کی تعداد چھ ہزار سے زیادہ ہے!وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے کورونا وبا کے خلاف آگاہی اور اِس سے بچنے کی جملہ تدابیر بشمول ویکسین کے بارے میں عوامی شعور اُجاگر کرنے کی مہمات اپنی جگہ لیکن ویکسین کے بارے میں عوامی ردعمل‘ شکوک و شبہات اور تحفظات دور کرنے کیلئے بھی اقدامات ہونے چاہیئں۔ مثال کے طور پر سوشل میڈیا پر ایسے کئی پیغامات (مختصر دورانئے کے ویڈیو کلپس) زیرگردش ہیں جن میں بتایا جاتا ہے کہ کورونا ویکسین لگانے والوں کے بدن پر مقناطیس چپک جاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ ویکسین کی آڑ میں کوئی خاص قسم کی چپ (chip) جسم میں داخل کر دی جاتی ہے تاکہ ہر فرد کی نگرانی کی جا سکے اور دوسرا تاثر یہ ہے کہ کورونا ویکسین لگانے کا تعلق بچوں کی پیدائش سے متعلق صلاحیت ختم کرنا ہے۔ یہ دونوں تصورات کے بارے وضاحت نہیں کی جا رہی اور نہ ہی ایسے پیغامات (ویڈیوز) کی سوشل میڈیا پر تشہیر روکی جا رہی ہیں۔ بدگمانی قابل علاج مرض ہے جو کورونا وبا سے زیادہ پھیلا ہوا ہے اور درحقیقت زیادہ تر اموات اِسی کے سبب ہو رہی ہیں کہ شک و ابہام کی سیاہ آندھیاں چل رہی ہیں! قومی اور صوبائی حکومتیں اگر معروف و تجربہ کار طبی ماہرین کی خدمات سے استفادہ کرتے ہوئے نماز جمعہ کے اجتماعات سے خطابات کا اہتمام کرے تو اُمید ہے کہ ویکسین کے بارے بہت سارے شکوک رفع ہوں گے بصورت دیگر ویکسینیشن مہم کتنی ہی بڑی اور کتنی ہی منظم و مستعد ہو لیکن اِس کی کامیابی کے امکانات کم رہیں گے۔