ٹریفک پولیس نے تین ماہ (پندرہ فروری سے پندرہ مئی دوہزاراکیس) کے دوران 73 ہزار 555 ایسے موٹر سائیکل سواروں کو جرمانہ کیا ہے جنہوں نے دوران سفر ”ہیلمٹ‘‘نہیں پہن رکھے تھے۔ ٹریفک قواعد کی خلاف ورزیاں گویا معاشرے کی گھٹی میں شامل ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بظاہر معمولی دکھائی دینے والے ٹریفک قواعد قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع (ناقابل تلافی نقصان) کا باعث بنتے ہیں اور موٹرسائیکل سواروں کا ہیلمٹ نہ پہننا ایک ایسی ہی عمومی غلطی (بظاہر معمولی لگنے والا جرم) ہے لیکن اِس کے نتائج حادثات کی صورت انتہائی خطرناک ہو سکتے ہیں۔ موٹرسائیکل سوار نوجوان ”ون ویلنگ‘‘سے محظوظ ہوتے ہیں جو اُن کے علاوہ دیگر افراد کی جانوں کے لئے خطرہ ہے اور تین ماہ کے دوران ایسے ”ون ویلنگ‘‘کرنے والے 189 نوجوان جرمانے کئے گئے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ جرمانہ کرنے کا مطلب ”وقتی سزا“ ہے جبکہ ٹریفک قواعد کی خلاف ورزیاں کرنے کا ریکارڈ نہ ہونے کی وجہ سے یہ بھی معلوم نہیں ہو سکتا کہ کون کتنی خلاف ورزیوں یا کتنی مرتبہ (بار بار) جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اُمید ہے کہ اِس بارے میں متعلقہ حکام پہلی فرصت میں غور فرمائیں گے۔ پشاور کی ضلعی انتظامیہ اور ٹریفک پولیس کے فیصلہ سازوں کو مربوط حکمت عملی مرتب کرنا پڑے گی جیسا کہ قبل ازیں دیکھنے میں آئی تھی کہ بنا ہیلمٹ موٹرسائیکل سواروں کو پٹرول فروخت نہیں کیا جاتا تھا لیکن اِس پابندی پر چند ماہ عمل درآمد ہونے کے بعد صورتحال جوں کی توں برقرار ہے اور پٹرول پمپ پر اکثر موٹرسائیکل سواروں کو بنا ہیلمٹ پٹرول خریدتے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ صورتحال بالخصوص پشاور کے مضافاتی علاقوں میں انتہائی تشویشناک ہے‘ جہاں پٹرول پمپوں کے علاوہ سافٹ ڈرنکس کی استعمال شدہ بوتلوں میں چوری چھپے پٹرول (جسے ایرانی پیٹرول کہا جاتا ہے) فروخت ہوتا ہے۔ ضلعی انتظامیہ اُور ٹریفک پولیس اہلکاروں کے لئے یہ بات ممکن نہیں کہ وہ ہر پٹرول پمپ کی چوبیس گھنٹے نگرانی کریں لیکن جو بات ممکن ہے وہ یہ کہ پٹرول پمپوں پر لگے ہوئے نگرانی کے کلوز سرکٹ ٹیلی ویژن کیمروں (CCTV) میں محفوظ ریکارڈنگز دیکھی جا سکتی ہیں کہ پٹرول کی فروخت اگر حسب ِحکم و قواعد نہیں ہو رہی تو ایسے پٹرول پمپ مالکان کو بھی جرمانہ ہونا چاہئے کیونکہ وہ بھی شریک جرم ہیں۔ اِس عمل سے پٹرول پمپوں پر لگے کیمروں کی جانچ پڑتال بھی ہو جائے گی اور ایسے آئی پی کیمرے بھی معلوم ہو جائیں گے جن تک بذریعہ انٹرنیٹ ٹریفک پولیس رسائی کر سکتی ہے۔ پولیس حکام پٹرول پمپوں کو مستقبل میں ”آئی پیز (نیٹ ورک) کیمروں‘‘کی تنصیب کا پابند بنا سکتے ہیں جن کے ذریعے اِنہیں نگرانی اور ٹریفک قواعد پر پابندی جیسے عوامل سے باآسانی و باسہولت آگاہی ممکن ہو گی۔ پشاور کے موٹرسائیکل سوار ہی سب سے زیادہ جرائم کے مرتکب نہیں بلکہ رکشہ ڈرائیوروں کی اکثریت خود کو ہر قسم کے قواعد و ضوابط سے بالاتر سمجھتی ہے لیکن اِن کا ذکر مذکورہ سہ ماہی رپورٹ میں نہیں کیا گیا۔ لائق توجہ امر یہ بھی ہے کہ موٹرسائیکل سواروں کی وہ اکثریت جو دوران سفر ہیلمٹ استعمال نہیں کرتی اِس جرم کے لئے سوفیصد ذمہ دار نہیں بلکہ اُن کے والدین اُور بزرگ بھی شریک ِجرم ہیں جن کے علم میں ہے کہ اُن کا بیٹا یا بھائی موٹرسائیکل تو استعمال کر رہا ہے لیکن اُس کے پاس ہیلمٹ نہیں ہے۔ نئے یا استعمال شدہ موٹرسائیکلز فروخت کرنے والے مراکز کو بھی اِس بات کا پابند بنانا ضروری ہے کہ وہ موٹرسائیکل بمعہ ہیلمٹ فروخت کریں اُور اِس حکم کی خلاف ورزی کرنے والے شورومز اور ڈیلرز کے خلاف بھی کاروائی ہونی چاہئے۔ لاقانونیت انفرادی نہیں بلکہ معاشرے کا اجتماعی مسئلہ ہے اور اِس سے نمٹنے کے لئے معاشرے کی ہر اکائی کو ”شریک ِجرم“سے ”شریک ِسفر‘ ’کرنا پڑے گا۔ ٹریفک قواعد سے متعلق عوام کی اکثریت لاعلم نہ ہونے کے باوجود لاعلم ہے تجاوزات نے اندرون و بیرون شہر کے بازاروں اُور سڑکوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔اندرون شہر کی جن شاہراہوں کو ”یک طرفہ (ون وے)“ قرار دیا گیا اُن پر عمل درآمد اُس وقت تک دیکھنے میں نہیں آتا جب تک وہاں ٹریفک پولیس اہلکار تعینات نہ ہو۔ اِسی طرح مال بردار بھاری ٹریفک کے اندرون شہر داخلے پر پابندی کا مذاق بھی دن دیہاڑے اُڑایا جاتا ہے۔ اِس سلسلے میں تینوں فریقین (ٹریفک پولیس حکام‘ ضلعی حکومت اُور ضلعی انتظامیہ) کو مل بیٹھ کر اَندرون شہر سے اجناس کی منڈیوں کو ’بیرون شہر‘ منتقل کرنا ہوگا‘ جن کی وجہ سے شاہراہیں پُرہجوم رہتی ہیں۔ فی الوقت کورونا وبا کے باعث تعلیمی ادارے بند ہیں لیکن سات جون سے تعلیمی سرگرمیاں بحال ہونے کے بعد سکول بسوں‘ منی بسوں اُور وینز کی آمدورفت سے ٹریفک کا دباؤ بڑھ جاتا ہے۔خواص ہوں یا عوام پشاور میں ٹریفک قواعد پر عمل درآمد کرنے والوں کا شمار اُنگلیوں پر کیا جا سکتا ہے اُور ٹریفک قواعد کی خلاف ورزیاں اِس قدر عام ہیں کہ اگر کوئی شہری ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹریفک قواعد پر عمل کرنے کی کوشش کرے تو اُسے تعجب کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹریفک پولیس کی سہ ماہی رپورٹ میں 2 لاکھ 82 ہزار 469 ٹریفک قواعد کی خلاف ورزیوں پر جرمانے کئے جن میں کئی ایسے جرائم بھی ہیں جو شعور کے باوجود بھی رونما ہوئے ہیں جیسا کہ سیٹ بیلٹ نہ پہننے پر اٹھارہ ہزار چالان اِس حقیقت کی عکاسی کر رہے ہیں کہگاڑیوں کا استعمال کرنے والے اپنی اُور دوسروں کی حفاظت سے ’دانستہ لاتعلق‘ ہیں اُور یہ قطعی طور پر مثبت طرزعمل نہیں۔ٹریفک قواعد کی خلاف ورزیاں کرنے والوں میں کورونا احتیاطی تدابیر (SOPs) پر عمل درآمد نہ کرنے والے اکسٹھ ہزار افراد کو بھی شمار کیا گیا ہے حالانکہ ایسے لاکھوں افراد سے بازار اُور پبلک ٹرانسپورٹ بھری دکھائی دیتی ہے جو بنا ماسک گھومتے پھرتے یا سفر کرتے ہیں۔ قانون کا وسیع پیمانے پر اطلاق ممکن بنائے بغیر قانون شکنی روکی نہیں جا سکتی اور اِس سلسلے میں خواص کو مشعل ِراہ بننا ہوگا۔