زندگی بجائے خود ایک بہترین معلم ہوا کرتی ہے کیونکہ حالات کے تھپیڑوں کی صورت میں زندگی انسان کو جو سبق سکھاتی ہے وہ کسی بھی درسگاہ یا کسی بھی دوسرے استاد سے حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا بدلتے حالات ہی پھررشتوں اور تعلق کی پہچان کراتے ہیں اورتب پتہ چلتاہے کہ حقیقی دوست کون ہے اور وقت گزاری کرنے والا ساتھی کون ہے کسی بھی انسان کازندگی میں بہت سے لوگوں سے واسطہ رہتاہے اورکامیاب انسان صرف وہی قرارپاتاہے جو اصل چہرے جلد سے جلد پہچاننے کی صلاحیت سے بہرہ ورہوجائے موجودہ دور کی بات کی جائے تو اس وقت ایک سفید پوش انسان کیلئے پردہ پوشی کرنا ایک انتہائی مشکل امر بن چکاہے مادہ پرستی کے اس دور میں اگر کبھی معمول سے ہٹ کر ضرورت پیش آجائے تو پھر سفید پوشوں کے ماتھے کاعرق دیکھنے والے کم ہی ہوا کرتے ہیں کیونکہ بیماری ہو یا پھر گھر میں کسی خوشی کاموقع مہنگائی کے اس بدترین دو ر میں ان مراحل سے گذرنا اب خواب و خیال بنتاجارہاہے ایسے مواقع پر مٹھی بھر ایسے لوگ ضرور ہوتے ہیں جو پھر پردہ پوشی کاباعث بن جاتے ہیں یہ لوگ درحقیقت روشن ستارے ہیں جو اگرچہ اس وقت بہت کم ہیں مگر پھربھی ان کی روشنی بہت سو ں کو مایوسی کے اندھیروں میں بھٹکنے سے بچانے میں بہت زیادہ ممدومعاون ثابت ہوتی ہے ایسے مخلص دوستوں کی محفل سے بڑھ اور کیا چیز ہوگی خوش قسمتی سے ایسے دوستوں کی محفل کاایک مرکز ہماری بھی رسائی میں ہے جہاں چندلمحے گذار کر بہت کچھ سیکھنے کے ساتھ ساتھ کئی دنوں کے لیے دل ودماغ تروتازہ بھی ہوجاتاہے وگرنہ اس وقت تو حالت یہ ہوچکی ہے کہ
دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیاہو
مگر نیساپور کی محفل کی بات ہی کچھ اورہے ہمارے برادرم میجر عامر کثیر الجہتی شخصیت کے مالک ہیں بیک وقت فوجی بھی ہیں سیاستدان بھی ہیں،صحافی بھی ہیں عالم دین بھی ہیں ادیب بھی ہیں تو ساتھ میں شعروشاعری کابھی عمدہ ذوق رکھتے ہیں اس لیے ان کی محفل ہمیشہ ہمہ رنگ ہوا کرتی ہے گذشتہ دنوں فون آیا کہ نیسا پور پہنچو محفل سج رہی ہے تو بس پھر کیا تھا اگلے روز دوپہر کے آس پاس ہم اس گوشہ سکون میں تھے جس کانام نیساپور ہے جو ہم جیسے شہرپرستوں کے لیے یقینا میجرعامر کاایک تحفہ ہے گاؤں سے تو کب کے رابطے ٹوٹ چکے ہیں اب پشاور کے قریب خالص قدرتی ماحول میں چند لمحے گذارنے ہوں تو پھر فوراً عازم نیساپورہوجاتے ہیں کہ اس کے دروازے میجر عامر کے دوستوں کیلئے کسی بھی وقت بندنہیں ہوتے اس روز میجر عامر کی میزبانی میں ایک طرف اسلام آباد کے ایوان ہائے اقتدار کی غلام گردشوں کے محرم راز رؤف کلاسرا سے آف دی ریکارڈ بہت کچھ سن رہے تھے تو دوسری طرف علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے سابق وی سی اورکالم نگار ڈاکٹر شاہدصدیقی بھی رنگ جمائے ہوئے تھے بزرگان جمیل مرغز اور قیصر بٹ کی چپقلش اور باہمی ”بمباری“حسب سابق رونق بڑھائے ہوئے تھے اور ناصر علی سید کے لچسپ تبصرے اور موقع کی مناسبت سے شعروں کے انتخاب سے ماحول رومانوی رنگ بھی اختیار کیے ہوئے تھا انس اور طلحہ کو عرفان بشیر کے ساتھ محض تربیت کی غرض سے لے کرگیا تھا باہمی گفت وشنید،مباحثوں،یادوں کے ذکر نے تو چارچاند لگادیئے تھے میجر عامر ہر بار کوئی نہ کوئی نئی کہانی سناکر پھرسے ہمارے اس شوق کو مہمیز دینے لگتے ہیں کہ اب تو میجر صاحب کو پکڑ کر ان کی یادداشتوں کے عرق سے نوخیز ذہنوں کو معطر کرنے کا کو ئی نہ کوئی اہتمام ہوناچاہئے رؤف کلاسرا نے بھی اسی پر زور دیاکہ جب تک یہ سب کچھ دستاویزی صورت اختیار نہیں کرتا بات نہیں بنے گی مگر ہمیشہ کی طرح اس بار بھی میجر صاحب صاف غچہ دے گئے شام تک محفل عروج پرپہنچ چکی تھی کہ پھرواپسی کا بگل بجادیاگیا اس وقت ڈاکٹر شاہدصدیقی نے انتہائی برموقع ناصر کاظمی کاشعرمیجر عامر کے نام کرتے ہوئے سنایا
دوستوں کے درمیان
وجہ دوستی ہے تو
یقینا ایساہی ہے کہ ایک دوسرے سے انجان بھی نیساپور پہنچ کر ایک لڑی کاحصہ بن جاتے ہیں اور اس کی وجہ کوئی اور نہیں صرف میجر عامر ہے جن کے لیے دل سے ہمیشہ یہی دعانکلتی ہے کہ اللہ انہیں تندرست وتوانااور نیساپور کو اسی طرح آباد رکھے کیونکہ اس روز ہم نے میجر عامر کے ہاتھ میں ایک لفافہ دیکھا جو انہوں نے بڑی عقید ت سے ناصر علی سید کے حوالہ کیا پتہ چلاکہ مرحوم سلیم راز صاحب جو اس وقت ہسپتال میں زیر علاج تھے کیلئے ایک نذرانہ میجر صاحب کی طرف سے حوالہ کیاگیا ہے یہی میجرعامرکی خوبی ہے کہ کسی کے کہے بغیر ہی بہت کچھ کرجاتے ہیں ماضی میں کئی معروف ترقی پسند شعراء اورادیبوں کو جب اپنوں نے بھلا دیا تویہ میجر عامر ہی تھے جنہوں نے آگے بڑھ کر ہاتھ تھاما اور وہ بھی بغیر کسی نمود ونمائش کے ایسے کتنے ہی لوگوں کو ہم جانتے ہیں جن کی پردہ پوشی کرنے میں میجر عامر نے نمایاں کردار ادا کیا شاید اسی کاپھل وہ دیرپا مسرتوں اور سکون قلب کی صورت میں پاتے رہتے ہیں اورہاں ہم انکو یاد دلاناچاہتے ہیں کہ ہم نے اگلے چند روز میں پوری کمپنی کے ساتھ نیساپور میں چند ذاتی اور نجی محفلیں سجانی ہیں جس کے لیے یقینا اجازت نہیں بلکہ ان کو پیشگی مطلع کرناضروری ہے جلدہی میجرعامر کی یادداشتوں کو دستاویزی شکل دینے کے حوالہ سے بھی اب پیشرفت کیلئے انگلیاں ٹیڑھی کرنی پڑیں گی کہ یہ ان کے دوستوں کافرض اور میجر صاحب پر نئی نسلوں کاقرض ہے یقینا وہ یہ قرض چکانے میں اب مزید تاخیر نہیں کریں گے کہ پاکستان کی سیاست ہویا پھر سرد جنگ کا زمانہ میجر عامر کی یادوں کی پٹاری میں بہت سے ایسے لعل وگہرہیں جو ہماری دستاویزی تاریخ کاحصہ بننے چاہئیں دعاہے کہ ہمہ رنگی پر مشتمل یہ محافل اسی طرح بپا ہوتی رہیں البتہ اب ان میں نوجوانوں کاحصہ ضروری ہوچکاہے تاکہ مرعوب فکری بھکاریوں کے نرغے سے انہیں بچایاجاسکے۔