خیبرپختونخوا میں طب کی تعلیم سے جڑے سرکاری ملازمین کا مطالبہ ہے کہ سال 2015ء میں سرکاری ہسپتالوں کو خودمختاری دیتے ہوئے ملازمتوں سے متعلق جن محکمانہ اصلاحات کا اعلان کیا گیا تھا اُن پر عمل درآمد کیا جائے۔ اِس سلسلے میں ملازمتی قواعد وضع کرنے اور ملازمین کی تنخواہوں کے ڈھانچے مرتب کیا جائے جسے مکمل کرنے کے حوالے سے متعلقہ نگران ادارے نے گزشتہ برس فیصلہ کیا تھا۔ مذکورہ ’پالیسی بورڈ‘ سال 2019ء میں قائم ہوا تھا‘ جو ’میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیویشنز ریفارمز ایکٹ 2015ء‘ کے اطلاق کی عملی شکل ہے اور اِس کے تحت ایک جیسے درجات رکھنے والے اُن ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات میں فرق ختم کرنا تھا جو مختلف تدریسی اداروں میں تعینات ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ خیبرپختونخوا حکومت نے مذکورہ ’ریفارمز ایکٹ‘ صوبے کے 10 سرکاری ہسپتالوں اور اُن سے ملحقہ تدریسی اداروں میں نافذ کر رکھا ہے اور اِس اصلاحاتی قانون کی منظوری صوبائی اسمبلی نے سال 2015ء میں دی تھی۔ اصلاحاتی قانون کا بنیادی مقصد سرکاری ہسپتالوں اور تدریسی سہولیات میں خدمات سرانجام دینے والے ملازمین کو قواعد و ضوابط کا پابند بنانے کے علاوہ صحت کیلئے مختص ہونے والے بجٹ کا بڑا حصہ تنخواہوں اور مراعات پر خرچ ہونے کی بجائے علاج معالجے کیلئے استعمال میں لانا تھا اور سرکاری ہسپتالوں کے وسائل اور سہولیات میں اضافہ بھی مقصود تھا لیکن مذکورہ اصلاحات پہلے اور دوسرے مرحلے میں نافذ کرنے کے بعد سے معالجین اور تدریسی خدمات سرانجام دینے والے ڈاکٹروں میں بے چینی پائی جاتی ہے جن کیلئے سرکاری نوکری زیادہ پرکشش نہیں رہی اور کئی ماہر و معروف ڈاکٹروں نے اِسی وجہ سے سرکاری ملازمتوں سے الگ ہونے کا بھی فیصلہ کیا‘ جس پر صوبائی حکومت نے ردعمل کرتے ہوئے بھرتیوں کے ذریعے افرادی قوت میں کمی نہیں آنے دی۔ حکومت کے اِس غیرمتوقع ردعمل کی وجہ سے سرکاری ملازمتیں چھوڑنے والے ڈاکٹروں کا سلسلہ اِس حد تک نہ بڑھ سکا کہ اِس سے کوئی بحران جنم لیتا لیکن ڈاکٹروں کی جانب سے محکمانہ قواعد مرتب کرنیکا مطالبہ خطرے کی ایک ایسی گھنٹی ہے کہ اگر اِس پر خاطرخواہ توجہ نہ دی گئی تو اِس سے آنیوالے دنوں میں علاج معالجے کی سہولیات ’ممکنہ ہڑتال‘ کے سبب متاثر ہو سکتی ہیں۔خیبرپختونخوا ’میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیویشنز ریفارمز ایکٹ 2015ء‘ کے تحت میڈیکل کی تعلیم سے متعلق اداروں کے معاملات کے لئے ’بورڈ آف گورنرز‘ فیصلے کرے گا اور نگرانی کے اِس عمل کو مؤثر بنانے کیلئے سرکاری تدریسی اداروں کو مالی و انتظامی خودمختاری دی گئی۔ اِس سے قبل سرکاری ہسپتالوں اور تدریسی سہولیات کے جملہ معاملات و امور کی نگرانی صوبائی محکمہئ صحت کرتا تھا۔ القصہ مختصر اصلاحاتی قانون بنایا گیا اور اِس میں ترمیم کرتے ہوئے 2019ء میں ایک نگران شعبہ بنایا گیا تاکہ مختلف تدریسی سہولیات سے وابستہ اہلکاروں کیلئے ایک جیسے ملازمتی قواعد اور ایک جیسی مراعات تشکیل دی جا سکیں۔ ’پالیسی بورڈ‘ کی تشکیل تو ہوئی لیکن اِس کے فیصلے اور فیصلوں پر عمل درآمد فوری طور پر نہیں ہو سکا۔ معالجین کے نکتہئ نظر سے اصلاحاتی قانون اور اِس کی ذیل میں بننے والے قواعد امتیازی ہیں جیسا کہ کوئی بھی ڈاکٹر اپنی خدمات کسی ایک ہسپتال یا کالج سے دوسرے کو منتقل نہیں کر سکتا اور ایسا کرنے کیلئے الگ سے قواعد تشکیل دیئے گئے جن میں یہ بھی شامل ہے کہ ملازمت کرنے سے پہلے اگر اُس نے بطور دوسری پسند کسی مقام کا انتخاب کر رکھا ہے تو صرف ایسی ہی صورت میں اُسے ملازمت منتقل کرنیکی اجازت دی جائے گی۔ اِس قاعدے کی ضرورت اِس لئے پڑی کیونکہ ڈاکٹر بھرتی ہونے کیلئے چھوٹے اضلاع میں ملازمتیں کر لیتے تھے اور چند ہفتوں یا مہینوں بعد اپنی ملازمتیں بڑے شہروں میں منتقل کروانے کیلئے سیاسی اثرورسوخ کا استعمال کرنے لگتے۔ جسکی وجہ سے دور افتادہ اضلاع کے ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی کمی رہتی۔ اصلاحاتی قانون متعارف ہونے کے بعد محکمہئ صحت میں ہونے والی تمام بھرتیاں نئے قانون و قواعد کے تحت ہو رہی ہیں جبکہ ماضی میں بھرتی ہوئے ملازمین اور نئے ملازمین کے ملازمتی ڈھانچے میں فرق پایا جاتا ہے جو اتنا پیچیدہ بھی نہیں کہ اِسے حل نہ کیا جا سکے۔’میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیویشنز ریفارمز ایکٹ 2015ء‘ کا مقصد سرکاری ہسپتالوں‘ سرکاری میڈیکل وڈینٹل کالجوں کے مالی و انتظامی امور ہی نہیں بلکہ اِن کے غیرترقیاتی اخراجات کو بھی کم کرنا تھا جو ماضی کے مقابلے کم ہونے کی بجائے زیادہ ہو گئے ہیں۔