شاعر قربان علی سالکؔ بیگ نے کہا تھا ”تنگ دستی اگر نہ ہو سالکؔ …… تندرستی ہزار نعمت ہے۔“ اِس ضرب المثل شعر سے کئی ملتے جلتے اشعار مختلف شاعروں سے منسوب ہیں تاہم کلیات ِ سالکؔ مطبوعہ 1966ء میں یہ شعر (اصل حالت میں موجود ہے۔ بہرحال پیغام اہم ہے جو اِس اور دیگر سبھی اشعار میں ایک جیسا ہے کہ ہزار نعمتوں سے بڑھ کر ’تن درستی‘ ہے جبکہ تندرست رہنے کیلئے صبح کی سیر (چہل قدمی) اور ورزش (کسرت) ایسے مجرب نسخے ہیں‘ جن پر عمل کر کے ہزار ہا بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ ”گنجان آباد پشاور شہر کے رہنے والے ’صبح کی سیر‘ چہل قدمی یا ورزش کے لئے کہاں جائیں؟“ شہر کے باغات اور سبزہ زار یا تو قبضہ ہو گئے ہیں یا اُن کی نجکاری کر دی گئی ہے اور المیہ در المیہ یہ ہے کہ اہل شہر کی فریاد سننے والا بھی کوئی نہیں ’کسے وکیل کریں‘ کس سے منصفی چاہیں؟‘مغلیہ عہد کی یادگار‘ شاہی باغ (800 کنال یا 16 ہزار مرلہ) رقبے پر مشتمل پشاور کا قدیم اور سب سے بڑا باغ ہے جس کی تباہی کا نکتہئ آغاز غیرملکی امداد کی آڑ میں ہونے والے ترقیاتی کام ثابت ہوئے یقینا ’امریکی عوام کی جانب سے امداد کے ادارے ’یو ایس ایڈ (USAID)‘ کے حکام اپنی جگہ پریشان ہوں گے کہ اُنہوں نے جس شاہی باغ کی بحالی کیلئے سفیر کے خصوصی فنڈ سے امداد دی تھی اُس سے شاہی باغ کی اہمیت و افادیت بڑھنے کی بجائے کم کر دی گئی! یادش بخیر اگست 2009ء میں محکمہئ بلدیات خیبرپختونخوا کے فیصلہ سازوں نے ’شاہی باغ‘ کی خوبصورتی کے نام پر درختوں کا قتل عام کیا‘ سبزہ زار ختم کئے اور شاہی باغ کا نصف سے زائد حصے کو ’فن لینڈ‘ قائم کرنے کیلئے اجارے پر دے دیا جبکہ لگے ہاتھوں باقی ماندہ ’شاہی باغ‘ کی بھی نجکاری کر دی جس کے بعد باغ سے استفادہ کرنے والوں عام شہریوں کو داخلی دروازوں پر قیمت ادا کرنا پڑتی تھی اور یوں اہل ِپشاور سے تفریح کا وہ صحت مند ذریعہ ’چھین‘ لیا گیا جو یہاں کی پہچان تھی۔ ذہن نشین رہے کہ صرف ’فن لینڈ‘ ہی نہیں بلکہ میونسپل سکول‘ ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم‘ ضلعی حکومت‘ ٹاؤن ون‘ ٹریفک پولیس کے دفاتر اور دکانیں تعمیر کر کے شاہی باغ کے مختلف حصوں پر پہلے ہی قبضہ کیا جا چکا ہے اور یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ ہر دور حکومت میں سرکاری ادارے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے ’شاہی باغ‘ کے کسی نہ کسی حصّے پر دست درازی کرتے ہیں‘ جو سراسر غیرقانونی ہونے کے باوجود یہ سلسلہ جاری ہے۔گورنر شاہ فرمان خان کا آبائی تعلق پشاور سے ہے اور وہ پشاور کے اِس دکھ کو سمجھ سکتے ہیں کہ کس طرح پشاور کے باغات اور سبزہ زاروں کی اراضی قبضہ کی گئی ہے‘ جسے واگزار کرایا جا سکتا ہے۔قریب ایک مربع کلومیٹر (800 میٹرز) پر محیط گورگٹھڑی کا شمالی حصّہ توجہ چاہتا ہے‘ جہاں قائم کردہ تجاوزات (شادی ہال‘ کتب خانہ اور ٹاؤن ون دفاتر) عدالت عالیہ (پشاور ہائی کورٹ) کے حکم سے مسمار کر دیئے گئے لیکن یہ شمالی حصہ تاحال کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے اور اُمید تھی کہ تمام ملبہ تجاوزات کی بنیادوں سمیت اکھاڑ کر یہاں بھی سبزہ زار بنائے جائیں گے اور گورگٹھڑی کی چاردیواری کے ساتھ ’جاکنگ ٹریک بنایا جائے گا جہاں الصبح اور دن ڈھلے شہری چہل قدمی کے لئے آئیں گے لیکن توسیع و بحالی تو دور کی بات گورگٹھڑی کے نگران و منتظم محکمہئ آثار قدیمہ نے الصبح چہل قدمی کے لئے آنے والوں پر گورگٹھڑی کے دروازے تک بند کر دیئے۔ رمضان المبارک کے آغاز (چودہ اپریل دوہزاراکیس) سے قبل گورگٹھڑی صبح کی سیر اور شام کی چہل قدمی کے لئے آنے والوں کی تعداد 100سے 150 رہتی جن میں مرد و خواتین‘ بزرگ و جوان اور تندرست و معذور افراد شامل ہوتے تھے چونکہ رمضان المبارک کے معمولات میں سحری کیلئے نصف شب کے قریب اُٹھنا اور پھر نماز فجر کے بعد وظائف کی ادائیگی کی وجہ سے معمولات زندگی تبدیل ہو جاتے ہیں اور یہی وجہ رہی کہ رمضان المبارک کے آغاز اور آگے بڑھنے کے ساتھ صبح کی سیر کے لئے آنے والوں کی تعداد کم ہوتی چلی گئی تاہم عید الفطر کے بعد الصبح (پانچ بجے سحر سے دن آٹھ بجے کے درمیان) گورگٹھڑی آنے والوں کیلئے تعجب خیز تھا کہ شاہی باغ کی طرح صبح کی سیر کے لئے آنے والوں پر ’بغیر کسی اعلان اور بغیر کسی جواز‘ گورگٹھڑی کے دروازے بند کر دیئے گئے ہیں البتہ ’شاہی باغ‘ کا معاملہ کچھ اور ہے کہ جہاں داخلہ فیس مقرر کرنے کی وجہ سے اندرون شہر کے رہنے والوں نے گورگٹھڑی کا رخ کیا اور اب گورگٹھڑی کا 500 میٹر جاکنگ ٹریک بھی بند کر دیا گیا ہے۔ اِس سلسلے میں محکمہئ آثار قدیمہ کے منتظم سے ذاتی طور پر درخواست کی گئی ہے کہ وہ صبح کی سیر یا چہل قدمی کے لئے گورگٹھڑی آنے والوں کی مایوسی کو خوشی سے بدل دیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ گورگٹھڑی میں تعینات عملے نے اپنی سہولت کے مطابق یہ فیصلہ کیا ہے جو قطعی نامناسب و بلاجواز ہے کیونکہ کورونا احتیاطی تدابیر (SOPs) کے تحت بھی کسی باغ‘ باغیچے کو بند نہیں کیا جا سکتا اور این سی اُو سی کی جانب سے حالیہ رعایت میں سبزہ زاروں اور سیاحتی مقامات کو کھول دیا گیا ہے۔