زراعت ہی ’راہئ نجات‘ ہے اور اِس حقیقت کا ادراک ہونے کے باوجود بھی ماضی و حال کی حکومتیں جس ایک شعبے کو خاطرخواہ توجہ نہیں دیتیں‘ وہ موزوں آب و ہوا اور دستیاب وسائل جیسی نعمتوں سے متعلق ہے۔ سننے میں آ رہا ہے کہ وفاقی حکومت آئندہ مالی سال (دوہزار اکیس بائیس) کے بجٹ میں اعلیٰ پیداوار والی فصلوں کیلئیے فنڈز مختص کرے گی تاکہ بڑھتی ہوئی مقامی طلب کو پورا اور بنیادی غذائی اجناس کی درآمد پر انحصار کو کم کیا جاسکے۔ بجٹ سے قبل قومی پرائس مانیٹرنگ کمیٹی (این پی ایم سی) نے قومی غذائی تحفظ و تحقیق سید فخر امام اور وزیر صنعت خسرو بختیار پر مشتمل 2 رکنی سب کمیٹی تشکیل دی ہے جو خوردنی تیل سمیت دیگر بنیادی غذائی اجناس کی درآمد پر انحصار کو کم کرنے کیلئے متبادل ذرائع تلاش کرکے طویل مدتی انتظام کرنے کیلئے کام کرے گی۔ خوردنی تیل کے حوالے سے تیلدار اجناس کی کاشت حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے بھی اور نہیں بھی۔ زیتون کی کاشت پر توجہ کے ساتھ دیگر تیلدار اجناس کی کاشت کیلئے پاکستان کے کئی علاقے موزوں ہیں اور اگر اٹھارہویں ترمیم کے تحت تحلیل کئے گئے آئل اینڈ سیڈ ڈویلپمنٹ بورڈ کو پھر سے فعال کیا جائے تو تیلدار اجناس پر تحقیق اور توسیع کے حوالے سے کوششوں کو ازسرنو شروع کیا جا سکتا ہے۔خوردنی تیل کے متبادل ذرائع کی تلاش کا فیصلہ خوش آئند ہے اُور اِس سلسلے میں فیصلہ وزیر خزانہ شوکت ترین کی زیر صدارت قومی پرائس مانیٹرنگ کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا ہے جو خوردنی تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں آنے والے نمایاں اتار چڑھاؤ کی وجہ سے تشکیل دیا گیا ہے۔ مذکورہ اجلاس کو بتایا گیا کہ موجودہ تحقیقی اداروں کو جدید خطوط پر استوار (اپ گریڈ) کرنے اور متبادل اعلیٰ پیداوار والی فصلوں سے متعلق مشورہ دینے کیلئے جدید (عصری) تحقیقی وسائل (ریسرچ فیسیلیٹیز) فراہم کرنا ہوں گے اور اِس مقصد کیلئے آئندہ بجٹ (مالی سال دوہزاراکیس بائیس) میں خصوصی فنڈز مختص کئے جائیں گے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ زراعت کیلئے جس قدر اور جتنے زیادہ سے زیادہ فنڈز مختص کئے جائیں وہ کم رہیں گے۔ زرعی شعبہ میں انقلاب کیلئے جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے اِس سے مال مویشی‘ مرغ بانی‘ گوشت‘ دودھ اُور اِس سے بننے والی مصنوعات میں بھی اضافہ ممکن ہے جنہیں برآمد کرنا بھی دیگر مصنوعات کے مقابلے آسان ہوتا ہے لیکن حکومتی سطح پر فیصلے جن اعدادوشمار کی بنیاد پر کئے جاتے ہیں اُن میں سے اکثر گمراہ کن حد تک غلط ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر قومی تحفظ خوراک کے حوالے سے اجلاس میں جب مرغیوں اور انڈوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے حوالے سے حالات کا جائزہ لیا گیا تو جو 2 وجوہات سامنے آئیں وہ یہ تھیں کہ ”قیمت میں اضافہ طلب و رسد کے فرق کی وجہ سے ہے اور پولٹری کی بیماری اور کورونا وبا (کووڈ19) کی وجہ سے مرغیوں کی صنعت (پولٹری فارمز) کے نقصانات کے باعث رسد متاثر ہوئی ہے۔“ اگر یہی دونوں وجوہات (محرکات) درست ہوتے تو اِن کے منفی اثرات کسی بھی صورت دائمی نہیں ہونے چاہئے تھے۔ فیصلہ سازوں کا اطمینان اور سردمہری اپنی جگہ لائق تشویش ہے کہ مرغی اور انڈوں کی قیمت میں اضافے کے دو ماہ سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہے اور وہ زندہ مرغی (برائلر) جو اوسطاً ڈیڑھ سو روپے فی کلوگرام کے حساب سے فروخت ہوتا تھی اُس کی قیمت تین سو روپے تک جا پہنچی ہے جبکہ فی درجن انڈے کی قیمت 100 روپے سے بڑھ کر 150 روپے کے لگ بھگ ہے اصل مسئلہ مہنگائی ہے‘ جس سے متعلق بھی حکومت کو پیش کردہ اعدادوشمار درست نہیں۔ جیسا کہ رواں ہفتے سات اشیا کی قیمتوں میں کمی جبکہ اُنیس میں استحکام رہا لیکن مارکیٹ کی صورتحال یہ ہے کہ ہر چیز کے ’دام بڑھ رہے ہیں‘ اور جس ردوبدل کا ذکر کیا جاتا ہے وہ اِس قدر واجبی (معمولی) ہوتا ہے کہ اِس سے عام آدمی کو ’ریلیف‘ نہیں ملتا۔ مرحلہئ فکر ہے کہ مہنگائی کے ستائے ہوئے عوام اور حکومت کے درمیان ٹوٹے ہوئے تعلق کو بھی بحال ہونا چاہئے۔