سوشل میڈیا: تاثیر و اثرات

انٹرنیٹ پر منحصر سماجی رابطہ کاری کے مقبول وسیلے ”ٹوئیٹر“ کی تاثیر اور (رائے عامہ پر) اثرات کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت کو قدیم ترین اور مضبوط ترین جمہوریت قرار دینے والے سوشل میڈیا سے خوفزدہ ہیں اور حیلوں بہانوں سے نہ صرف ٹوئیٹر پر پابندیاں عائد کر رہے ہیں بلکہ ٹوئیٹر کے متبادل ذریعہ بھی متعارف کروا چکے ہیں جسے حسب توقع خاطرخواہ پذیرائی نہیں ملی۔ اگرچہ یہ الگ موضوع ہے کہ کیا بھارت دنیا کی قدیم ترین جمہوریت ہے؟ اُور اِس تصور کے امریکہ کی 49ویں نائب صدر سینیٹر کمالہ حارس نے 2019ء میں اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ کو اِنٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت 1947ء میں برطانوی راج سے آزاد ہوا اور 1949ء میں جمہوریہ کا پہلا قانون بنایا گیا جس کے تحت 1951-52ء میں پہلے جمہوری عام انتخابات کا انعقاد ہو۔ اِس لئے بھارت نہ تو قدیم ترین ملک ہے اُور نہ ہی قدیم ترین جمہوریت ہے۔“ ذہن نشین رہے کہ 56 سالہ نائب صدر کمالہ حارس کی والدہ (ڈاکٹر شمائلہ گوپلان) بھارتی نژاد ہیں جو 1960ء میں امریکہ جا بسی تھیں لیکن بھارت کے قدیم ترین جمہوری ملک ہونے کے دعوے کو تسلیم نہیں کرتیں اُور اِس بارے میں دلائل اُن کی تصنیف کردہ کتاب ”دی ٹروتھ وی ہولڈ: اَین اَمریکن جرنئی میں پڑھے جا سکتے ہیں۔رائے عامہ کی آزادی کے بغیر جمہوریت نامکمل رہتی ہے اُور یہی وجہ ہے کہ ادھوری جمہوریت جس قدر غربت اور جہالت کے نجات کے خواب دیکھے اُن کی تعبیر نہیں ملتی۔ اِس سلسلے میں بھارت کی مثال جمہوری طرزحکمرانی کا مطالعہ کرنے والے طالب علموں کے لئے تجویز کی جاتی ہے کہ وہ حالیہ چند ہفتوں میں ہونے والی پیشرفت پر نظر رکھیں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ بھارت کس انداز سوشل میڈیا کے سامنے ہار مان رہا ہے۔ رواں ہفتے بھارتی حکومت نے کہا کہ ”1: سوشل میڈیا کا مقبول بین الاقوامی مائیکرو بلاگنگ پلیٹ فارم ٹوئیٹر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت پر اپنی شرائط کے ذریعے اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ 2؛ ٹوئیٹر اپنے اقدامات اور ’دانستہ خلاف ورزیوں‘ سے بھارت کے نظام قانون کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے۔بھارت کا یہ مؤقف ٹوئیٹر کی طرف سے جاری کئے گئے بیان کے ردعمل میں جاری ہوا جس میں ٹوئیٹر نے بھارت میں اظہار رائے کی آزادی کے بارے میں تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ”اُس کے بھارت میں ملازمین کو ہراساں کیا جا رہا ہے جس کے بارے میں ٹوئیٹر (بطور ادارہ) فکرمند ہے۔“ اِس بیان کا پس منظر یہ ہے کہ دہلی پولیس کے تفتیش کاروں نے چھبیس مئی کی رات ٹوئیٹر دفتر پر چھاپہ مارا اُور وہ ایک ’ٹول کِٹ‘ کے سلسلے میں پوچھ گچھ کے لئے وہاں گئے تھے۔یاد رہے کہ انڈین حکومت اور ٹوئیٹر کے درمیان یہ تناؤ اس وقت پیدا ہوا تھا جب چند دن قبل حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک سینئر ترجمان سمبت مہاپاترا نے ٹول کٹ کے بارے میں پیغام پوسٹ کیا جس میں حزب اختلاف کی جماعت کانگریس پر الزام لگایا گیا تھا کہ اس نے ’مودی حکومت کو بدنام کرنے کے لئے یہ ٹول کٹ بنائی ہے جس کا استعمال رائے عامہ تبدیل کرنے یعنی بی جے پی کے خلاف کیا جا رہا ہے‘  ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا کہ کسی ملک کی حکمراں جماعت یا وہاں کی حزب اختلاف ٹوئیٹر پر جانبداری کا الزام عائد کر رہی ہے لیکن ٹوئیٹر ایسی کسی بھی تخریب کاری سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ”بھارت اور پوری دنیا میں ہمیں اور سول سوسائٹی کو ہماری پرائیویسی کی عالمی پالیسی کے جواب میں پولیس کی جانب سے دھمکانے کا حربہ استعمال کئے جانے پر بھی تشویش ہے۔ ہم ان ضابطوں میں تبدیلی کی پر زور مخالفت کریں گے جو اظہار کی آزادی میں حائل ہوں۔“ ٹوئیٹر اُور بھارت کے درمیان تنازع ایک ایسے وقت میں پیدا ہوا ہے جب بھارتی حکومت فیس بک‘ واٹس ایپ‘ ٹوئیٹر‘ گوگل اور سوشل میڈیا کے دیگر بڑے پلیٹ فارمز کو بھارتی قوانین کے تابع لانا چاہتی ہے اُور اِس مقصد کے لئے مذکورہ پلیٹ فارمز اِس بات کے لئے پابند ہوں گی کہ وہ بھارت کی سکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے طلب کرنے پر کسی صارف یا صارفین کے بارے میں تمام تر (منہ مانگی) تفصیلات فراہم کریں۔ ٹوئیٹر بمقابلہ بھارت کے عنوان سے سوشل میڈیا اور اظہار رائے کی آزادی کے علم برداروں کا کہنا ہے کہ ”بھارت کے ان نئے ضابطوں سے اظہار رائے کی آزادی کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی قطعی نہیں بلکہ بعض ذمے داریوں سے مشروط ہے۔“ لمحہئ فکریہ ہے کہ بھارت سمیت دنیا میں جہاں کہیں سماجی رابطہ کاری کے وسائل پر پابندی کی ’غیرضروری‘ ضرورت پیش آتی ہے وہاں ”قومی سلامتی کو لاحق خطرات اُور قومی سلامتی کے تحفظ“ جیسی وسیع المعانی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں۔ جمہوریت اُور جمہوری ممالک کو سمجھنا ہوگا کہ موجودہ دور میں سوشل میڈیا کے بغیر جمہوریت کا تصور ادھورا ہے اُور یہ وہ زمانہ بھی نہیں جب غیرملکی اداروں کو ڈرا دھمکا کر یا اُن کے کاروباری مفادات پر ہاتھ ڈالنے جیسی دھونس سے اپنے مطالبات تسلیم کروائے جا سکیں۔ بھارت میں جاری سوشل میڈیا اِداروں اُور حکومت کے درمیان رسہ کشی سے خطے کے ممالک بشمول پاکستان کا منظرنامہ سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔