ملک میں مختلف شعبوں میں حساب کتاب کے امور پر نظر رکھنے والے محکمے ادارہ شماریات نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں 38 فیصد گھرانوں کے معاشی حالات پہلے سے بد تر ہوگئے ہیں، 46 فیصد گھرانوں کے حالات پہلے جیسے ہیں۔ 13 فیصد گھرانوں نے اپنے حالات پہلے سے بہتر قرار دیئے،صرف 2 فیصد گھرانوں نے معاشی حالات پہلے سے بہت زیادہ بہتر قرار دیئے۔ایک فیصد گھرانوں نے سروے ٹیم کو بتایا کہ وہ حالات بہتر یا بدتر ہونے کے بارے میں نہیں جانتے،23فیصد گھرانوں نے کمیونٹی کے معاشی حالات پہلے سے بد تر قرار دیئے، 48فیصد کے خیال میں کمیونٹی کی صورتحال پہلے جیسی ہے۔صرف 11فیصد کے مطابق علاقے کی معاشی صورتحال پہلے سے بہتر ہوئی،گھریلو معاشی حالات کو بد تر قرار دینے والوں کی تعداد سندھ میں سب سے زیادہ 34فیصدہے، خیبر پختونخوا میں 27 فیصد،پنجاب میں 25 فیصد اوربلوچستان میں 22 فیصد کے مطابق گھریلو معاشی حالات پہلے سے بد تر ہیں،سروے کے مطابق پنجاب 14، سندھ 9، خیبر پختونخوا 17 اور بلوچستان میں 13 فیصد گھرانوں کے معاشی حالات بہتر ہوئے۔یہ حقیقت ہے کہ عالمی وباء کی وجہ سے گذشتہ ڈیڑھ سالوں سے عالمی معیشت کساد بازاری کا شکار ہے۔ پاکستان سمیت ترقی پذیرممالک پر وباء کے منفی اثرات ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں زیادہ مرتب ہوئے ہیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری کی شرح میں غیر معمولی اضافہ اورآبادی بڑھنے سے وسائل کم پڑنا فطری امر ہے۔ محکمہ شماریات کے اعدادوشمار پڑھتے ہوئے کہوار زبان کے مشہور شاعر امیر گل امیرکے چند اشعار یاد آگئے۔ ان کا کہنا ہے کہ ”گذرا ہوا کل کا دن آج کے مقابلے میں بہتر تھا۔ کچھ لوگوں کے معاشی حالات بدتر اور کچھ کے بہتر ہونے کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں۔اس بارے میں لوگوں کی آراء بھی مختلف ہوسکتی ہیں اور کسی بھی رائے کو حرف آخر قرار نہیں دیا جاسکتا۔آج سے چالیس سال پہلے بیس کلو آٹے کا تھیلا بیس روپے کا آتاتھا۔ اس وقت مزدور کی دیہاڑی دو روپے روزانہ ہوا کرتی تھی۔ ساٹھ ستر روپے میں ایک چھوٹے گھرانے کا مہینے بھر کا گذارہ ہوتا تھا۔ آج مزدور چھ سات سو روپے روزانہ کماتاہے اور بڑی مشکل سے گذارہ کرپاتا ہے۔ اس زمانے میں پچاس روپے میں شلوار قمیض کاایک جوڑاسل کر تیار ہوتا تھا۔ آج دو ہزار میں ایک سادہ سوٹ تیار ہوتا ہے۔ اس وقت ڈالر دو روپے کا ہوتا تھا۔ آج 160روپے کا ایک ڈالر ہے۔ 1999ء تک موبائل فون صرف امراء، صنعت کاروں، جاگیر داروں، بڑے تاجروں اور افسر شاہی کے پاس ہوا کرتے تھے۔ آج ہر گھر میں مردوزن کے پاس تین ہزار سے لے کر ایک لاکھ روپے مالیت تک کے موبائل فون اور ہر موبائل میں دو دو سمیں ہیں جن کا ماہانہ خرچ تین چار ہزار روپے بنتا ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف کا یہ قول ریکارڈ پر ہے کہ ”ہمارے دور میں لوگوں کے معاشی حالات میں انقلاب آیا ہے ہر شہری کے ہاتھ میں ہزاروں روپے کا موبائل فون ہے“مہنگائی کی شرح اور موبائل فون کی دستیابی کو غربت اور امارت کا معیار قرار نہیں دیا جاسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ کل بھی جو لوگ محنت کرتے تھے انہیں محنت کا صلہ ملتا تھا۔ آج بھی محنت کرنے والے معقول صلہ پاتے ہیں۔ ہمیں امید کا دامن تھامے رہنا چاہئے۔ اور شبانہ روزمحنت کرنی چاہئے ہمیں آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اگر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے تو ہمیں کان سے پکڑ کر ترقی کی دوڑ میں شامل نہیں کرے گا۔ اس وقت حالات حوصلہ افزاء ہیں اور کورونا وباء کی تباہ کاریوں کے باوجود معاشی اشاریے درست سمت میں جا رہے ہیں اگر مربوط اور منظم انداز میں اقتصادی ترقی کی منصوبہ بندی کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ پسماندگی ترقی میں بدل جائے اور انتھک محنت ہی وہ کنجی ہے جس سے آج کے جدید دور کے خزانوں کو کھولا جا سکتا ہے اور اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔