ہندکو: پارلیمانی زبان۔۔۔۔

تاریخی تناظر کی روشنی میں دیکھا جائے تو پشاور ہندکو زبان بولنے والوں کا مرکزی علاقہ تھا اور آج بھی یہاں ہندکووانوں کی اکثریت ہے۔ نکتہ لائق توجہ ہے کہ قیام پاکستان کے 72 سال بعد بھی پشاور ہندکو زبان کا مرکز ہے اور جب ہم ہندکو زبان کی بات کرتے ہیں تو یہ صرف کسی بولی کا نام نہیں بلکہ رہن سہن کا طریقہ ہے اِس سلسلے میں تازہ ترین پیشرفت خیبرپختونخوا اسمبلی میں پیش ہونے والی ایک قرارداد ہے‘ جس کے ذریعے اسمبلی کاروائی کو براہ راست ہندکو زبان میں ترجمہ کرنے اور وقتاً فوقتاً جاری ہونے والی مختلف دستاویزات یا خط و کتابت ہندکو زبان میں بھی دستیاب ہو گی۔ بعدازاں قرارداد کی رسمی وضاحت کرتے ہوئے نذیرعباسی نے کہا کہ ”پشاور‘ کوہاٹ اور ہزارہ ڈویژن کی اکثریتی آبادی ہندکو زبان بولتی ہے اور اگر خیبرپختونخوا اسمبلی کی کاروائی ہندکو زبان میں بھی ترجمہ ہوگی تو اِس طرح نہ صرف ہندکو آبادی سے تعلق رکھنے والوں کو پارلیمانی کاروائی سمجھنے میں آسانی ہو گی بلکہ بقول نذیر عباسی ”میرے خیال میں‘ اِس سے ہندکو زبان کو عزت بھی ملے گی۔“ قرارداد پیش ہونے کے بعد اسپیکر نے رکن اسمبلی اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے مشیر برائے اطلاعات کامران بنگش کو اظہار خیال کیلئے مدعو کیا جنہوں نے ہندکو زبان کو بطور پارلیمانی زبان پیش ہونے کی قرارداد کی مکمل حمایت و تائید کی اور کہا کہ ”صوبے کے بڑے شہری مراکز جن میں پشاور‘ ایبٹ آباد‘ ہری پور اور ڈیرہ اسماعیل خان کے کچھ حصے شامل ہیں‘ وہاں ہندکو بولنے کی اکثریت ہے۔ پشاور کے حوالے سے بات کروں تو میرا انتخابی حلقہ اور اِس سے ملحقہ پشاور سٹی میں ہندکو بولنے والوں کی اکثریت ہے تو اپنے حلقے کی نمائندگی کرتے ہوئے اور اِن کی قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ اِس قراداد کو منظور کر لیا جائے۔“ اِس حکومتی بیانئے (تائید) کے بعد سپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی نے انگریزی زبان میں ایوان سے پوچھا کہ کیا موجود اراکین اسمبلی چاہتے ہیں کہ یہ قرارداد منظور ہونی چاہئے؟ اُنہوں نے کہا جو اِس قرارداد کے حق میں ہیں ’یس (ہاں)‘ کہیں تو ہال میں ’یس‘ کی آواز گونجی۔ پھر اُنہوں نے کہا جو اِس قرارداد کے مخالف ہیں وہ ’نو (نہیں)‘ کہیں تو کسی رکن اسمبلی نے مخالفت نہیں کی اور یوں ہندکو زبان کے پارلیمانی ہونے سے متعلق قرارداد (تکنیکی اعتبار سے) متفقہ طور پر (بنا مخالفت) منظور کر لی گئی۔ یہ ایک تاریخی موقع اور غیرمعمولی پیشرفت ہے کہ (آئندہ) خیبرپختونخوا قانون ساز ایوان کی کاروائی ہندکو زبان میں ترجمہ ہونے کے علاوہ ہندکو زبان میں دستیاب بھی ہوگی۔ نذیر عباسی کی جانب سے قرارداد پیش کرنے کی اجازت ملنے کے ساتھ سپیکر مشتاق احمد غنی (جن کا تعلق بھی ہندکو زبان بولنے والے اکثریتی علاقے ایبٹ آباد کے انتخابی حلقے ’PK-39 ایبٹ آباد 4‘ سے ہے) نے قرارداد پر دستخط کرنے والے اراکین اسمبلی کے نام پڑھنے سے آغاز کرنے کو کہا تو رکن اسمبلی نذیر عباسی نے کہا کہ ”قرارداد کی حمایت کرنے والوں کی فہرست خاصی طویل ہے اور اِس میں بیس بائیس نام ہیں‘ جن کا تعلق حکمراں تحریک انصاف (ٹریژری بینچ) اور حزب اختلاف (اپوزیشن) سے ہے۔“ اگر نذیر عباسی سپیکر کی جانب سے دیئے جانے والے لقمے کی اہمیت کو سمجھتے اور قیام پاکستان کے بعد سے ہونے والے 72سالہ دور میں ہندکووانوں کی اپنی مادری زبان کے لئے جدوجہد کو مدنظر رکھتے تو یقینا (آج کی تاریخ میں) ہر اُس رکن صوبائی اسمبلی کے نام کی اہمیت ہے جو ’آن دی ریکارڈ‘ ہندکو ماں بولی کی حمایت کر رہا ہے اور اُن سبھی ناموں کا فخر سے مشتہر (ذکر) ہونا چاہئے کہ جنہوں نے ہندکو زبان کو اُس کی اہمیت و حیثیت کے مطابق مقام دینے کی حمایت و تائید کی ہے۔