خیبرپختونخوا حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد اضافے کا اعلان کر دیا ہے اضافے کا اطلاق اس سال یکم جون سے ہوگا وزیراعلیٰ محمود خان نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ آئندہ بجٹ میں بھی سرکاری ملازمین کو ایڈ ہاک ریلیف بھی دیا جائے گا۔ وزیراعلیٰ نے یومیہ اُجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کی کم سے کم ماہانہ اُجرت 17 ہزار روپے سے بڑھا کر 21 ہزار روپے کرنے کا بھی اعلان کیا۔ وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا حکومت نے سرکاری ملازمین کے ساتھ جو وعدہ کیا تھا وہ بجٹ سے پہلے ہی پورا کر دیا گیا۔ کورونا وباء کی وجہ سے درپیش مشکل مالی حالات کے باوجود صوبائی حکومت نے ملازمین کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ کرنے کا فیصلہ کیاہے کیونکہ موجودہ حکومت معاشرے کے کمزور اور کم آمدنی والے طبقوں کو زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کرنے کیلئے ہر ممکن اقدامات اُٹھا رہی ہے وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ حکومت کی مثال والدین کی ہوتی ہے اور ملازمین کی مثال اولاد کی ہوتی ہے حکومت کی یہ بھر پور کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کودستیاب وسائل کے اندر رہتے ہوئے زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کرے تاکہ وہ دلجمعی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے سکیں۔کورونا کی وجہ سے پیدا ہونے والے معاشی بحران کے باوجودخیبر پختونخوا حکومت کے معاشی حسن انتظام کی وجہ سے صوبے کواب تک کسی بڑی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔بجلی منافع کے بقایاجات اور قابل تقسیم وفاقی محاصل میں پورا حصہ نہ ملنے کے باوجود صوبائی حکومت نے تمام شہریوں کو ہیلتھ کارڈ کی سہولت فراہم کی۔ طبی عملے کی تنخواہوں میں غیر معمولی اضافہ کیا گیا۔ اب صوبائی ملازمین کی تنخواہوں اور محنت کشوں کی اجرت میں اضافے کا اعلان نہایت خوش آئند ہے۔وزیراعلیٰ نے درست کہا کہ حکومت کی مثال والدین کی سی ہے لیکن وزیراعلیٰ کے قول میں معمولی ترمیم کرنا چاہوں گا ان کا کہنا تھا کہ سرکاری ملازمین کی مثال حکومت کی اولاد جیسی ہے۔ صرف سرکاری ملازمین ہی نہیں، پرائیویٹ اداروں میں کام کرنے والے ملازمین اور صوبے کے عوام کی مثال حکومت کی اولاد جیسی ہے اور والدین اپنی اولاد کے ساتھ کبھی امتیازی سلوک نہیں کرتے۔توقع ہے کہ صوبائی حکومت نے محنت کشوں کی کم سے کم اجرت اکیس ہزار مقرر کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے اس فیصلے پر پوری طرح عمل درآمد بھی کرائے گی۔ وزیراعلیٰ اور صوبائی وزیر محنت کے نوٹس میں ایک اہم ایشو لانا مناسب سمجھتا ہوں۔ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ(ای او بی آئی) نے پرائیویٹ اداروں میں پندرہ سال ملازمت پوری کرنے والوں کو پنشن کا حقدار قرار دیا ہے۔ صوبے کے پرائیویٹ اداروں میں کام کرنے والے ہزاروں افراد ای او بی آئی پنشن سے مستفید ہورہے ہیں۔ کچھ ملازمین ایسے ہیں کہ ان کی سروس پندرہ سال سے چار چھ مہینے یا ایک ڈیڑھ سال کم ہے اور ان کی عمر ساٹھ سال پوری ہوگئی۔ چند مہینوں کے شارٹ فال کی وجہ سے وہ ای او بی آئی پنشن سے محروم رہ گئے۔ پورے صوبے میں ایسے ملازمین کی تعداد چند سو سے زیادہ نہیں ہے۔ صوبائی حکومت اگر ان کے باقی ماندہ مہینوں کی ای او بی آئی کنٹری بیوشن کے چند لاکھ روپے اپنے پلے سے جمع کرادے تو یہ غریب لوگ بھی پنشن کے حقدار ہوں گے۔ اور عمر کے آخری حصے میں مالی مشکلات سے نجات حاصل کریں گے۔ صوبے کے عوام معاشی حالت بہتر ہونے کے ثمرات سے مستفید ہونے کے منتظر ہیں۔ حکومت نے آئندہ مالی سال کے آغاز سے ہی مہنگائی میں کمی کا عندیہ دیا ہے۔ جس سے غریب اور متوسط طبقے کو امید کی کرن نظر آنے لگی ہے۔ حکومت اگر سیاحت، معدنیات اور آبی وسائل کے فروغ پر اپنی توجہ مرکوز رکھے تو لاکھوں افراد کو روزگار کے مواقع مل سکتے ہیں۔جب لوگوں کو روزگار ملے گا تو غربت کی شرح کم ہوگی،لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہوگا اور ہمیں اپنی ضروریات کیلئے وفاقی حکومت اور کمرشل بینکوں سے قرضے لینے کی ضرورت نہیں رہے گی۔