پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبروں کی حرمت بارے کئی مواقعوں پر تاکید کی لیکن افسوس کہ قبرستانوں کی اراضی پر تجاوزات قائم کی گئی ہیں جنہیں پھیلایا جا رہا ہے اور جن سے ملحقہ اراضی پر مکانات کی تعمیر کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل نکلا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ پشاور کے قبرستان سکڑ رہے ہیں۔ عارضی و مستقل تجاوزات قائم ہو رہی ہیں جن کی پشت پناہی سیاسی جماعتوں کی سرپرستی میں جاری ہے اور اِس عمل میں پٹوار خانے و مال خانہ بھی شانہ بشانہ شریک ہے جس کی ملی بھگت سے قبرستانوں کی اراضی مستقل بنیادوں پر نجی ملکیت بنا لی جاتی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ پرانی تاریخوں میں سٹامپ پیپرز اور جعلی دستاویزات (بیان حلفی و ملکیتی کاغذات) تیار کرنے کا دھندا کھلے عام ہوتا ہے! پشاور کے قدیم باسیوں کا وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان سے مطالبہ ہے کہ وہ پہلی فرصت میں‘ بھیس بدل کر پٹوارخانے اور مال خانے کا بھی دورہ کریں جہاں جائیداد کی ملکیت حاصل یا تبدیل کی جاتی ہے اور اُس دھندے کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں جس کیلئے بدعنوانی (کرپشن) کا لفظ استعمال کرنا معمولی ہے۔لمحہئ فکریہ ہے کہ پشاور کے صرف وہی قبرستان محفوظ ہیں جن کے باقی ماندہ حصوں کو خاندان برادری نے متحد ہو کر اور تنظیمیں بنا کر چاردیواریوں میں محفوظ کر لیا ہے لیکن چاردیواریوں کے اندر اور قبرستانوں کی اراضی کے معلوم رقبہ جات ہونے کے باوجود بھی اِن کی حفاظت یقینی دکھائی نہیں دے رہی جیسا کہ پشاور کا ’پارسی قبرستان‘ جو کہ چھاؤنی کی حدود میں 100 سال سے قائم ہے اور اِس کے رقبے سے متعلق تفصیلات بھی موجود ہیں لیکن اِس کے باوجود قبرستان منشیات فروشوں اور قبضہ مافیا کی نظروں میں ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈ پشاور کے ریکارڈ کے مطابق پلاٹ نمبر 323/CB جو کہ سروے نمبر 514 شامل ہے پارسی کیمونٹی کے نام بطور قبرستان مختص کیا گیا اور اِس اراضی پر جو کوئی بھی قبضہ کرے گا اُس سے سختی سے نمٹا جائے گا اور وہ اپنے نقصانات کا خود ذمہ دار ہوگا۔“ لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے پشاور سے پارسی کوچ کر چکے ہیں اور اب اِس قبرستان میں سوائے قبروں کے پشاور میں کوئی ایسا پارسی نہیں رہا جو اجداد کی نشانیوں کے تحفظ کیلئے آواز اُٹھائے اور قبرستان کی خستہ حالی کے بارے متعلقہ حکام کی توجہ دلائے جو جانتے ہوئے بھی انجان بنے ہوئے ہیں! سال 1995ء میں پاکستان پارسی منڈل نامی تنظیم نے جائزہ رپورٹ جاری کی تھی جس کے مطابق ملک میں پارسیوں کی کل تعداد 2831 افراد پر مشتمل ہے جن میں 2647 افراد کراچی‘ 94 لاہور‘ 45کوئٹہ‘ 30 راول پنڈی اسلام آباد‘ 8 ملتان اور 7 پشاور میں آباد ہیں۔ پشاور کے مقامی اور بھارت کی ریاست گجرات سے آئے مہاجر پارسی ایک عرصے تک یہاں کی معروف کاروباری شخصیات میں شامل رہے۔ یہ لوگ گجراتی زبان بولتے اور اپنے مخصوص نرم انداز گفتگو‘ اور لباس سے پہچانے جاتے تھے۔ پارسیوں کو برطانوی راج کے دوران پشاور لا کر آباد کیا گیا تاکہ اِس شہر کی کاروباری سرگرمیوں اور تجارت میں اضافہ کیا جا سکے اور اِسے نئی بلندیوں سے روشناس کرایا جا سکے۔ پارسی مذہب کے ماننے والے اپنے مرحومین کی آخری رسومات دیگر مذاہب کے مقابلے نہایت ہی مختلف انداز سے کرتے ہیں اور مرنے والے کے جسم کو کھلے آسمان تلے ایک چبوترے پر رکھ دیا جاتا ہے جہاں چرند پرند اور کیڑے مکوڑے اُسے نوچ کھاتے ہیں جس کے بعد لاش کی باقیات کو دفن کر دیا جاتا تھا اور اِس مقصد کیلئے پختہ قبریں بنائی جاتی تھیں چونکہ یہ رسومات انتہائی مختلف اور طویل دورانئے کی ہوتی تھیں اِس لئے برطانوی راج میں پارسیوں کو قبرستان کیلئے دیگر قبرستانوں سے الگ مقام پر جگہ فراہم کی گئی اور یہ وہ مقام تھا جہاں صرف برطانوی (سفید چمڑی والے) ہی جا سکتے تھے۔ پارسی کاروباری اور مالی لحاظ سے انتہائی بااثر اور دنیا بھر سے تجارتی روابط رکھتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ برطانوی راج میں پارسیوں کو وہ ملازمتیں بھی دی جاتی تھیں جو برصغیر کے دیگر مقامی افراد کیلئے ممنوع ہوا کرتی تھیں اور یہ اعتماد اِس بات مظہر تھا کہ برطانوی حکمران پارسیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور اُنہیں دیگر مقامی قبائل و افراد سے مختلف دیکھتے تھے۔سنہری مسجد روڈ پر پشاور کے پارسی قبرستان میں سب سے پرانی قبر کے کتنے پر 1890ء جبکہ سب سے جدید قبر کے کتنے پر 1993ء کی تاریخیں درج ہیں اور یہاں قریب پچاس قبریں ہیں۔ تاحال پارسی قبرستان کی اراضی دیگر قبرستانوں کی طرح غیرقانونی دسترس سے محفوظ ہے لیکن اِس کی چاردیواری ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اہل علاقہ یہاں منع کرنے کے باوجود گندگی پھینک دیتے ہیں۔ قبرستان وسیع احاطے پر مشتمل ہے جہاں ایک نگران کی رہائشگاہ بھی موجود ہے لیکن گزشتہ بیس پچیس برس سے پارسیوں کی اکثریت دنیا بھر سے یورپی ممالک آسٹریلیا یا کینیڈا منتقل ہوتی چلی گئی اور شاید پشاور کا آخری پارسی بھی یہاں سے کوچ کر چکا ہے!