شاعر حبیب صدیقی کے بقول ”ہائے بیدادِ محبت کہ بہ ایں بربادی …… ہم کو احساس زیاں بھی تو نہیں ہوتا ہے۔“ ماضی سے تعلق توڑ کر اور احساس زیاں کا احساس تک نہ ہونے کی کئی مثالیں ہمارے گردوپیش میں بکھری پڑی ہیں جیسا کہ قیام پاکستان کی جدوجہد میں برصغیر کے دیگر شہروں کی طرح پشاور نے بھی آزادی کی تاریخ اپنے خون سے رقم کی اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی یہاں 2 ایام خصوصی اہتمام سے منائے جاتے ہیں۔ پہلا خصوصی دن 23 اپریل کو منایا جاتا ہے جو شہدائے قصہ خوانی کی یاد میں ہوتا ہے جنہوں نے 1930ء میں برطانوی راج کے خلاف احتجاج کیا اور اپنے سینوں پر گولیاں کھائیں۔ اِس معرکے میں 20 شہادتیں اور 400 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے۔ اہل پشاور ابھی 23 مئی (سانحہئ قصہ خوانی) نہیں بھلا پائے تھے کہ 31 مئی (سانحہئ بازار کلاں) رونما ہوا جب سیاسی کارکنوں کی بڑی تعداد گرفتار تھی اور شہر میں مارشل لاء نافذ تھا۔ کابلی پولیس تھانے کے سامنے ٹاؤن ہال میں انگریز فوجیوں کا ایک بڑا مرکز تھا۔ 31مئی کی صبح ایک سرکاری ملازم (گنگا سنگھ) اپنے دو بچوں اور بیوی کے ساتھ ٹانگے میں سوار فوجی مرکز کے سامنے سے گزر رہا تھا کہ ایک انگریز فوجی نے اُن پر فائرنگ کی‘ جس سے دونوں بچے ہلاک ہو گئے۔ اِس بلااشتعال کاروائی کے خلاف پشاور کے اقلیتی باسی (ہندو اور سکھ) بھی برطانوی راج کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے‘ جنہوں نے مرنے والے بچوں کے جنازے اٹھا رکھے تھے۔ اِس احتجاج کی قیادت حکیم عبدالجلیل ندوی نے کی اور جب یہ جلوس تحصیل گورگٹھڑی (بازارِ کلاں) کے مقام پر پہنچا‘ جہاں مسلح دستہ پہلے ہی سے موجود تھا تو اُس نے مظاہرین پر گولیاں برسائیں۔ اِس حملے سے گیارہ مظاہرین ہلاک اور پندرہ زخمی ہوئے جن میں دو ہندو بھی شامل تھے جبکہ مظاہرین کی بڑی تعداد کو گرفتار کر لیا گیا۔ اِس سانحے کے 9 مسلم شہداء کو بیرون گنج گیٹ قبرستان میں دفن کیا گیا اور مذکورہ دونوں سانحات کی یاد ہر سال علامتی تقاریب کی صورت منعقد ہوتی ہے جبکہ نہ تو پشاور میں کوئی بڑی(شایان ِشان) تقریب ہوتی ہے اور نہ ہی اِس دن کی مناسبت سے ذرائع ابلاغ خصوصی ضمیمے یا مضامین شائع کرتے ہیں تاکہ نئی نسل کی تحریک ِآزادی سے متعلق معلومات میں اِضافہ ہو۔پشاور کے گمنام شہیدوں اور غازیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے کئی سیاسی و سماجی اور علمی اَدبی تنظیمیں تیئس مئی اور اکتیس مئی کی مناسبت سے تقاریب کا اہتمام کرتی ہیں۔ اِن میں پیش پیش عوامی نیشنل پارٹی اور گندھارا ہندکو اکیڈمی کے علاوہ سال 2018ء سے ہندکو زبان بولنے والوں کی پہلی منظم اور باقاعدہ سیاسی ترجمانی اور بیک وقت سماجی خدمات ادا کرنے والی ”پاکستان ہندکووان تحریک“ کے پلیٹ فارم سے بھی شہداء کی یادگاروں پر باقاعدگی سے حاضری دی جاتی ہے‘ پھولوں کی چادریں چڑھائی جاتی ہیں اور اجتماعی فاتحہ خوانی کی جاتی ہے۔ چونکہ یہ سوشل میڈیا اور میڈیا کا دور ہے اِس لئے ہر تقریب کی شروع سے آخر تک (مکمل) کاروائی بڑھا چڑھا کر مشتہر کی جاتی ہے لیکن حقیقت ِحال یہی ہے کہ تحریک ِآزادی ہو یا پشاور کی تاریخ‘ ہر سنگ میل‘ ہر محسن اور ہر احسان سے متعلق نئی نسل کو آگاہ کیا جائے کیونکہ اِسی زرخیز مٹی سے تقلید کے پیڑ اُگیں گے جو آزادی اور قیام پاکستان کے تصور کی تکمیل ہوگی۔ جس دو قومی نظریئے کی بنیاد پر پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا اور جس سیاسی نظام سے نجات حاصل کرنے کیلئے ’اَن گنت قربانیاں‘ دی گئیں اُن کی شعوری زندگی‘ یاد اور تازگی برقرار رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔وقت کے مزاج میں ٹھہراؤ (تعلق) نہیں ہوتا۔ کوئی اِس کی قدرشناسی کرے یا نہ کرے کوئی اِس کی اہمیت کا خاطرخواہ ادارک کرے یا نہ کرے‘ کوئی اِسے قابل قدر سمجھے یا نہ سمجھے یہ بنا مطلع کئے خاموشی سے گزرتا چلا جاتا ہے۔ پشاور کا ماضی ہوا کا جھونکا نہیں کہ آیا اور گزر گیا۔ یہ کسی بھی طرح لائق فراموش نہیں بلکہ لائق فخر ہے کہ قصّہ خوانی اور بازار ِکلاں کے شہداء نے جو تاریخ اپنے خون سے لکھی وہ بعدازاں پورے برصغیر میں پھیل گئی اور قیام پاکستان میں پشاور کی اِسی تحریک اور بعدازاں یہاں کے سیاسی خاندانوں کی قربانیوں اور جدوجہد کا حصّہ سب سے نمایاں رہا۔ یادش بخیر تحریک ِآزادی کے ’خفیہ ریڈیو سٹیشن‘ اندرون یکہ توت کوچہ آقا پیر جان (آستانہ عالیہ قادریہ حسنیہ)‘ سے نشریات اور اشاعتیں کی جاتی تھیں اور ایک موقع پر جب ریڈیو سٹیشن کی کھوج میں جگہ جگہ چھاپے مارے جا رہے تھے تو ریڈیو ٹرانسمیٹر کو ہتھ ریڑھی میں چھپا کر یہاں سے وہاں منتقل کیا جاتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ قیام پاکستان کی جدوجہد میں پشاور کے کردار اور یہاں کے سپوتوں کی قربانیوں کو خراج تحسین و عقیدت پیش کرنے کیلئے اگر سارا سال بھی یادآوری کی جائے تو بھی پاکستان کی صورت ملنے والی نعمت اور اِحسان کا حق اَدا نہیں ہو سکے گا۔ ”بنا کردند خوش رسمے بخون و خاک غلطیدن …… خدا رحمت کند اِیں عاشقان ِپاک طینت را۔۔ خون اور خاک میں تڑپنے والوں نے اچھی رسم کی بنیاد ڈالی۔ اللہ تعالیٰ اِن نیک فطرت عاشقوں پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔ (میرزا مظہر جانجاناں)“