معاشی استحکام کی عوامی تشریح۔۔۔۔

وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے اپنے عہدے کا چارج سنبھالتے ہی قوم کو خوشخبریاں دینی شروع کی ہیں۔ پہلے انہوں نے بتایا کہ قومی سطح پر شرح نمو ساڑھے چار فیصد ہوگیا ہے اس کا آسان لفظوں میں یہ مطلب ہے کہ ہماری معیشت بحرانی کیفیت سے نکل چکی ہے اور ٹیک آف کی پوزیشن میں آگئی ہے۔ عالمی معیشت پر نظر رکھنے والے بین الاقوامی اداروں نے بھی وزیرخزانے کے دعوے کی تصدیق کی ہے۔ اب وزیرخزانہ کی تازہ خوش خبری سننے میں آئی ہے کہ مستقبل میں بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیاجائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ آنے والے بجٹ میں زرعی شعبے کیلئے غیرمعمولی مراعات کا اعلان کیاجائے گا۔ ٹیکس گذاروں پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایاجائے گا۔ تاہم ٹیکس چوری کرنے والوں کا جدید ٹیکنالوجی اور بجلی کے بلوں سے سراغ لگایا جائے گا۔اور ان کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ گذشتہ پچاس سالوں سے ملک میں کوئی پائیدار معاشی پالیسی نہیں بنی۔ ہر حکومت نے اپنے وسائل سے استفادہ کرنے کے بجائے غیر ملکی قرضوں اور امداد پر انحصار کیا۔ سب سے زیادہ آبی ذخائر والے اس ملک میں پانی سے سستی بجلی پیدا کرنے کے بجائے غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ تیل و گیس سے بجلی پیدا کرنے کے مہنگے سودے کئے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس ملک کومعدنی ذخائر سے مالامال کیا ہے مگر ان سے آج تک استفادہ نہیں کیا گیا۔ کراچی سے مکران تک کے ساحلی علاقوں، سندھ کے صحراؤں، بلوچستان، خیبر پختونخوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے سیاحتی مقامات کو فروغ دینے پر کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ ہر حکومت نے اپنے سیاسی مفادات کو سامنے رکھ کر قلیل مدتی معاشی پالیسی بنائی۔  60کی دہائی میں شروع کئے گئے پانچ سالہ ترقیاتی منصوبوں کو سرد خانوں میں ڈال دیا گیا۔افراط زر کے معاشی نقصانات کی پروا کئے بغیر کرنسی نوٹ چھاپ کر ضروریات کو وقتی طور پر پورا کرنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کی شرح بتدریج بڑھتی رہی۔ لوگوں کا معیار زندگی گرتا رہا اور آج ملک کی 40فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے کی سطح پر زندگی گذار رہی ہے۔ دوہرے ٹیکسوں کے نظام نے لوگوں کی کمر بھی دوہری کردی۔بجلی کا بل اٹھا کر دیکھ لیں توصرف شدہ بجلی کی قیمت سے تین گنا زیادہ ٹیکسوں کا بوجھ صارفین پر ڈالا جاتا ہے۔ معیشت کی بہتری اور بجٹ کو عوامی اور فلاحی ثابت کرنے کیلئے جو اعدادوشمار پیش کئے جاتے ہیں وہ عام لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ عام پاکستانی کیلئے معیشت کی بہتری کا مطلب اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی اور روزگار کے مواقع پیدا ہوناہے۔ جب تک یہ دونوں چیزیں عوام کو دکھائی نہیں دیتیں، معیشت میں بہتری کی باتیں ان کیلئے بے معنی ہیں۔ موجودہ حکومت کے دور میں مہنگائی اور بے روزگاری کی شرح میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ جن کی وجوہات میں کورونا وباء کی وجہ سے لاک ڈاؤن، تجارتی اور کاروباری سرگرمیاں معطل ہونا اور دیگر وجوہات شامل ہیں۔ وزیراعظم اور وزیرخزانہ کا کہنا ہے کہ بہترین معاشی حکمت عملی کے تحت ان بحرانوں پر قابو پالیاگیا ہے۔ اور ملک کی معاشی صورتحال میں نمایاں بہتری آرہی ہے۔ حکومت نے شعبہ تعمیرات کے لئے مراعات کا اعلان کیا۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر قابو پالیا،منفی معاشی شرح نمو کو مثبت میں تبدیل کردیا۔ بیرون ملک سے پاکستانیوں نے ریکارڈ پیسے بھیجے، ایف بی آر نے ریکارڈ ٹیکس جمع کیا۔ اور زرمبادلہ کے ذخائر ملکی  تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے۔تاہم جب تک چینی، گندم، دال، گھی، بجلی، گیس اور تیل کی قیمتوں میں نمایاں کمی نہیں آتی، عام آدمی کیلئے معاشی شرح نمو میں اضافہ اور معیشت کے استحکام کی باتیں بے معنی ہیں۔