بیگم نسیم ولی خان سیاسی کارکنوں اور عام آدمی کیلئے صوبے کی ایک اہم سیاسی رہنما تھیں جنہوں نے اس وقت سیاسی میدان میں قدم رکھا جب عبدالولی خان اور پارٹی کے دیگر رہنماؤں کو جیل میں بند کردیاگیا مگر لونگین ولی خان کیلئے وہ ایک نفیس دادی کے علاوہ ماں اور باپ دونوں کا درجہ رکھتی تھیں بیگم نسیم ولی خان کی وفات پر سکندر ظفر اللہ خان کے ہمراہ لونگین سے ایک مختصر نشست ہوئی تو انہوں نے بی بی کے حوالے سے اپنے تاثرات کا اظہار کیا کہ کس طرح انکی زندگی کے تمام اہم فیصلے نہ صرف انکی دادی نے کئے بلکہ جب بات کام کی آئی تو کس طرح وہ ایک شفیق دادی سے بدل کر ایک بااصول اور مضبوط خاتون بنیں جنہوں نے اہم امور میں کبھی اصول کا دامن نہیں چھوڑا۔ لونگین کے مطابق2008ء میں سنگین ولی خان کی وفات کے بعد سے انہوں نے اپنے تمام اہم امور میں نہ صرف بیگم نسیم ولی نے انہیں ہمیشہ ایک ہی نصیحت کی کہ چاہے جو بھی ہو دادا عبدالولی خان اور یہ دادا باچا خان کا راستہ نہیں چھوڑنا اور انکے نقش قدم پر چل کر خدائی خدمتگار کی حیثیت سے عام آدمی کی خدمت کرنی ہے لونگین ولی خان کے مطابق آخری سالوں میں بیگم نسیم ولی بیماری کے باعث گھر تک محدود رہ گئی تھیں لیکن اسکے باوجود بڑی تعداد میں عوامی نیشنل پارٹی اور دیگر جماعتوں کے رہنما اور انکے خاندان کے کئی افراد نہ صرف ان کی خیریت دریافت کرنے آتے بلکہ ان سے مختلف سیاسی اور دیگر اہم امور میں مشورے لیتے اور رہنمائی حاصل کرتے ان کی وفات پر ملک بھر سے سیاسی قائدین کارکنان اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے ولی باغ آکر عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماؤں اور خاندان کے افراد امیر حیدر ہوتی‘ ایمل ولی خان‘ لونگین ولی خان‘ میاں افتخار حسین اور دیگر رہنماؤں سے تعزیت کی اور انکی سیاسی خدمات پر مرحومہ کو خراج عقیدت پیش کیا وفات کے دو ہفتے بعد بھی آج تک لوگوں کی ولی باغ آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ 16 مئی کو بیگم نسیم تقریبا85 سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوئیں تو پختون اور خواتین کی سیاست کے ایک اہم باب کا خاتمہ ہوا۔ انہوں نے 1975ء میں باامر مجبوری سیاست میں اس وقت قدم رکھا جب ولی خان سمیت پارٹی کے سرکردہ رہنما جیل میں ڈالے گئے۔ جیل سے رہائی کے بعد بڑی تعداد میں لوگوں نے ولی خان سے کہا کہ اب بیگم نسیم کو گھر بیٹھ جانا چاہیے کیونکہ سخت مراحل سے باہر آگئے ہیں۔ لونگین کے مطابق ولی خان نے ان کو جواب دیا کہ وہ کبھی بھی نہیں چاہتے تھے کہ نسیم سیاست میں آئیں مگر اب مجبوری میں وہ آگئی ہیں تو اب ان کا اپنا فیصلہ ہے کہ وہ واپس گھر بیٹھ جانا چاہتی ہیں یا سیاست جاری رکھنا چاہتی ہیں۔ 1977ء میں جب صوبے میں خواتین کے گھروں سے باہر جانے کا رواج نہیں تھا بیگم نسیم نے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے 4 مرتبہ عام انتخابات میں حصہ لیا اور ہر بار کامیابی حاصل کی حالانکہ ان کے شوہر عبدالولی خان اور بیٹوں اسفندیار ولی خان اور سنگین ولی خان کو انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے مگر بیگم نسیم ہر انتخابات میں کامیاب رہیں۔ ساتھ ہی ایک طویل عرصہ تک انہوں نے بحیثیت صوبائی صدر عوامی نیشنل پارٹی کو صوبے میں مضبوط بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ اسمبلی کی رپورٹنگ کے دوران یہ بھی محسوس کیا کہ کاروائی کے دوران جب بھی بیگم نسیم نے اٹھ کر مائک سنبھالا حکومت اور اپوزیشن بنچوں کے ممبران ایسے خاموش ہوئے جیسے کسی خاندان کے بزرگ اور اہم فرد کیلئے احترام کے طورپر خاموش ہوا جاتا ہے۔ بیگم نسیم کے بعد اسمبلی میں کئی خواتین مخصوص نشستوں پر تو آگئیں لیکن کوئی بھی ان کا مقام حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ نہ ہی ایک آدھ کے علاوہ کوئی ایسی خاتون سامنے آئیں جنہوں نے عوام میں جاکر انتخاب لڑا اور کامیاب ہوکر قانون سازی کے عمل میں شریک ہوئیں۔ یہ ان کی انفرادیت رہی کہ انہوں نے جو کارنامے انجام دئیے وہ کوئی اورخاتون انجام دینے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ بیگم نسیم ولی خان کی وفات سے ولی باغ اور صوبے کی سیاست میں جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کئی سالوں تک پر نہیں ہوسکے گا۔ انہوں نے جس طرح مشکل حالات میں نہ صرف پارٹی بلکہ قومی سطح پر تحریک کی قیادت کرکے جس ثابت قدمی کے ساتھ مسائل اور چیلنجز کا مقابلہ کیا اور کامیابی حاصل کی اس کی مثال مشکل سے ملے گی۔