مغربی ممالک کی ترقی کا راز وہاں کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں جاری تحقیق ہے جس سے شعبے میں ترقی کیلئے استفادہ کیا جا رہا ہے جبکہ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں اعلیٰ تعلیم کا تحقیق اور تحقیق کا ترقی سے رابطہ نہیں۔ نصابی کتابی باتوں اور نت نئے خیالات بھی لیبارٹریز میں دم توڑ جاتے ہیں‘ جنہیں صنعتوں بالخصوص نجی شعبے سے مربوط کرنے کیلئے اقدامات ہونے چاہئیں۔ اِس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ’پشاور چیمبر فار سمال ٹریڈرز اینڈ سمال انڈسٹری‘ نے غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ سائنسیز اینڈ ٹیکنالوجی کیساتھ ایک مفاہمت کی یاداشت پر دستخط کئے ہیں جس کے تحت ’جامعہ‘ میں ہونے والی تحقیق سے صنعتیں فائدہ اُٹھائیں گی اور صنعتیں اپنی ترجیحات کے مطابق بھی تحقیق کی درخواست کریں گے۔ بنیادی مقصد یہی ہے کہ جامعہ میں ہونے والی تحقیق کو بڑے پیمانے پر ترقی سے متصل کر دیا جائے۔ اپنی نوعیت کی اِس نہایت ہی اہم خبر کو ذرائع ابلاغ نے خاطرخواہ توجہ نہیں دی اور نہ ہی سوشل میڈیا پر اِس کی دھوم ہے لیکن اگر اعلیٰ تعلیم کا صنعتوں کے ساتھ تعلق کا تجربہ کامیاب ہو جاتا ہے تو پاکستان کا بہت ساری درآمدات پر سے انحصار کم ہوتا چلا جائے گا۔ تصور کریں کہ کم بجلی پر چلنے والے گھریلو استعمال کے الیکٹرانک آلات اور توانائی کے متبادل ذرائع کی تلاش میں اگر مقامی وسائل سے صنعتیں پیداوار کریں گے تو اِس سے نہ صرف روزگار کے مواقع بڑھیں گے بلکہ پاکستان کی خودانحصاری میں بھی اضافہ ہو گا‘ جو اپنی جگہ ایک اہم ضرورت ہے۔خیبرپختونخوا کی حکمراں جماعت تحریک انصاف نے پہلے دور (2013ء سے 2018ء) میں چھوٹی صنعتوں کی سرپرستی کا فیصلہ کیا جو عوام کی زندگیوں میں تبدیلی لانے کی جانب اہم پیشرفت تھی۔ تیس مئی کے روز وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان سے خلیجی اخبار گلف نیوز کی نمائندہ مہرتارڑ نے بات چیت کی جن کا پہلا سوال آئندہ مالی بجٹ (2021-22ء) میں سالانہ ترقیاتی منصوبوں سے متعلق تھا کہ صوبائی حکومت کی ترقیاتی ترجیحات کیا ہوں گی۔ اِس سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے قبائلی اضلاع میں تعمیروترقی کے حوالے سے منصوبوں کا ذکر کیا اور کہا کہ ”صوبائی حکومت قبائلی اضلاع میں مختلف جاری ترقیاتی منصوبوں کی قبل ازوقت تکمیل کیلئے زیادہ فنڈز جاری کر رہی ہے جبکہ 82 ارب روپے سے 102 بڑے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل ہو رہی ہے جن میں چار سو کلومیٹر شاہراؤں کی توسیع‘ بہتر سہولیات سے آراستہ صحت کے بنیادی مراکز اور ضلعی ہسپتال‘ پانچ لاکھ بچوں کیلئے سکولوں کی ضروریات کی فراہمی‘ ایک ہزار سکولوں کیلئے جدید سہولیات‘ پانچ لاکھ قبائلی نوجوانوں کیلئے تعلیم و تربیت کے مواقع‘ اٹھائیس سو ایکڑ پر آبپاشی کا نظام‘ پانچ لاکھ لوگوں کیلئے پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور چھ میگاواٹ پن بجلی کے منصوبے شامل ہیں۔ قبائلی اضلاع کی طرح خیبرپختونخوا کے بندوبستی اضلاع میں 90 بڑے ترقیاتی منصوبے سال 2023ء تک مکمل کر لئے جائیں گے جن میں 300 کلومیٹر شاہراؤں کی توسیع‘ جس میں سوات ایکسپریس کا دوسرا مرحلہ بھی شامل ہے۔ آئندہ نئے مالی سال میں خیبرپختونخوا 8 ہزار سکولوں‘ دوہزار بنیادی صحت کے مراکز اور چار ہزار مساجد کو شمسی توانائی سے روشن کرنیکا ارادہ رکھتی ہے جبکہ صوبے کے طول و عرض میں 4 لاکھ لوگوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کیا جائیگا۔ اِسی طرح 13 ہزار چھوٹی صنعتوں کو مالی سہارا دیا جائیگا جس سے ساڑھے تین لاکھ ملازمتیں پیدا ہوں گی اور اَسی ہزار مائیکرو انٹرپرائزیز کی سرپرستی سے پانچ لاکھ افراد کو روزگار ملے گا۔آئندہ مالی سال کیلئے خیبرپختونخوا کی ترقیاتی حکمت ِعملی اور ترجیحات میں بطور خاص اِس بات کو مدنظر رکھا گیا ہے کہ کورونا وبا کے معیشت پر منفی اثرات کو کم کیا جائے۔ اِس مقصد کیلئے فروری 2020ء میں قائم ہونیوالے قومی ادارے (NCOC) اور صوبائی ایمرجنسی آپریشن سیل کی سفارشات پر صوبے میں ہنگامی حالت کا نفاذ کیا گیا ہے۔ کورونا متاثرین کیلئے انتہائی نگہداشت کے مراکز میں 338 بستر اور 276 وینٹی لیٹرز فراہم کئے گئے ہیں۔ کورونا وبا کے دوران خیبرپختونخوا میں 14 لیبارٹریز کا قیام عمل میں لایا گیا جبکہ ٹیسٹنگ کی یومیہ استعداد صفر سے بڑھا کر 8 ہزار 110 کی گئی ہے۔ کورونا وبا کے آغاز پر سنٹرل آکیسجن کی فراہمی صرف 9 ہسپتالوں میں کی جا رہی تھی جسے 14 ہسپتالوں تک بڑھا دیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے بقول صوبے میں 3 فروری 2021ء سے جاری ویکسی نیشن کے عمل میں 8 لاکھ سے زائد افراد کو ویکسین لگائی جا چکی ہے جبکہ یومیہ اوسطاً 35 ہزار افراد کو ویکسین لگائی جاتی ہے۔ اِسی طرح صوبائی حکومت نے صحت کارڈ پلس سکیم کے ذریعے پورے صوبے میں ہیلتھ انشورنس متعارف کرائی ہے خیبرپختونخوا میں تعمیروترقی کا عمل جس رفتار اور معیار کیساتھ آگے بڑھ رہا ہے اُس کے حقیقی ثمرات عام آدمی تک پہنچانے کیلئے قومی و صوبائی ’صحت انصاف کارڈز‘ کے تحت جن نجی ہسپتالوں کو علاج کیلئے اختیار دیا گیا ہے اِس سے سرکاری ہسپتالوں پر مریضوں کا دباؤ کم تو ہوا ہے لیکن صحت عامہ کیلئے مختص مالی وسائل کا بڑا حصہ نجی اداروں کو منتقل ہو رہا ہے یقینا وزیراعلیٰ محمود خان اور تحریک انصاف کے مرکزی فیصلہ ساز اِس پہلو پر غور کرینگے کہ صحت کارڈ کے تحت خیبر پختونخوا کے جو114 ہسپتال مجاز قرار دیئے گئے ہیں اُن میں 95 نجی جبکہ صرف46 سرکاری ہسپتال ہیں اور صحت کارڈ سے70فیصد فائدہ نجی ہسپتال اُٹھا رہے ہیں۔