محکمہئ آثار قدیمہ نے بھارتی فلمی اداکاروں کے آبائی گھروں کا قبضہ حاصل کر لیا ہے‘ جنہیں ثقافتی عجائب گھروں میں تبدیل کیا جائے گا۔ قبل ازیں ڈپٹی کمشنر پشاور کی جانب سے ’کپور حویلی‘ اور ’دلیپ کمار گھر‘ کی ملکیت حاصل کرنے کیلئے اعلامیہ جاری ہوا لیکن جائیداد کے مالکان سے اختلافات بات چیت کے باوجود حل نہیں ہوئے ہیں اور لگ یہی رہا ہے کہ وہ اِس سلسلے میں عدالت سے رجوع کریں گے اور جو قبضہ یکم جون کی رات (دفتری اُوقات کے بعد) حاصل کیا گیا‘ ممکنہ عدالتی حکم امتناعی کی وجہ سے اِس پر زیادہ پیشرفت نہیں ہو سکے گی۔ ستمبر 2020ء میں صوبائی حکومت نے کپور حویلی اور دلیپ کمار کے گھروں کو خریدنے اور اُنہیں ثقافتی عجائب گھروں میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا جبکہ اِس سے قبل بھی اِس قسم کے اعلانات ہوتے رہے ہیں تاہم اِس مرتبہ زیادہ سنجیدہ اور عملی اقدامات دیکھنے میں آئے اور ڈپٹی کمشنر پشاور (خالد محمود) نے ’لینڈ ایکیوزیشن ایکٹ 1894ء‘ کی تین دفعات (چار‘ چھ اُور سترہ) کے تحت مذکورہ دونوں مکانات صوبائی حکومت کیلئے خریدنے‘ اُنہیں محکمہئ آثار قدیمہ کے حوالے کرنے اور مکانات کے مالکان سے اعتراضات تحریراً جمع کروانے کو کہا۔ اِس پوری صورتحال کا ایک فریق جائیداد مالکان ہیں جو اِنہیں فروخت کرنا نہیں چاہتے اور دوسری بات حکومت کی جانب سے مقرر کردہ قیمت پر اُنہیں اعتراض تھا کہ یہ ’مارکیٹ ویلیو (اصل قیمت)‘ سے بہت کم ہے تاہم ڈپٹی کمشنر نے کپور حویلی ڈھکی دالگراں‘ پشت قصہ خوانی بازار (رقبہ تقریباً چھ مرلہ) کی قیمت ڈیڑھ کروڑ (15ملین) روپے جبکہ دلیپ کمار کے آبائی گھر محلہ خداداد‘ پشت قصہ خوانی بازار (رقبہ تقریباً 4 مرلہ) کی قیمت 85لاکھ 60 ہزار (8.65ملین) روپے مقرر کی اور اِسی قیمت پر یہ مکانات صوبائی حکومت کے نام خرید لئے گئے ہیں۔ لائق توجہ امر یہ ہے کہ ڈپٹی کمشنر پشاور کی جانب سے جائیداد کی قیمتیں مقرر کی جاتی ہیں اور مذکورہ دونوں مکانات جو کہ انتہائی خستہ حالت میں ہیں اور رہائش یا کسی بھی دوسرے مقصد کیلئے قابل استعمال بھی نہیں لیکن اُن کی قیمت پشاور شہر میں حکومت کے مقرر کردہ نرخ سے زیادہ ادا کی گئی ہے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ دونوں مکانات کی ملکیت رکھنے والوں اِس وقف اراضی کے پہلے مالک نہیں بلکہ قیام پاکستان کے بعد یہ اراضی کئی افراد کو فروخت ہوئی ہے۔ اگرتحقیق کی جائے تو معلوم ہو سکتا ہے کہ اس میں پٹوار خانے اور محکمہئ مال کا کردار کیا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد کپور حویلی (تعمیر 1918ء سے 1922ء) ہندوؤں ہی کے زیراستعمال رہی اور اِسے 1968ء میں ایک نیلام میں چارسدہ سے تعلق رکھنے والے خوشحال رسول نامی شخص نے خریدا‘ جو برصغیر کی تقسیم کے قانون کے تحت تھا۔ اِس خریداری کے بعد حویلی پشاور کے مقامی شخص کو فروخت ہوئی۔ کپورحویلی کی وجہ شہرت (خصوصیت) یہ ہے کہ یہاں 1924ء میں راج کپور‘ شمی کپور اور ششی کپور پیدا ہوئے۔ کپور حویلی کے موجودہ مالک اسرار شاہ کے والد نے یہ حویلی 1980ء کے وسط میں خریدی تھی‘ جس کے بعد اسے اہل علاقہ خوشی یا غم کی تقاریب کیلئے استعمال کرتے رہے لیکن گزشتہ دس بارہ سال سے عمارت خستہ حال ہونے کی وجہ سے کسی کے بھی زیراستعمال نہیں۔ اِس کثیرالمنزلہ عمارت میں 40 کمرے ہیں جبکہ عمارت کی خاص بات اِس کے جھروکے (بالکنیاں) ہیں جو کبھی پشاور کے ہندو مسلم فن تعمیر کا حصہ ہوا کرتی تھیں لیکن اہل پشاور کی اکثریت نے اپنی بول چال (مادری زبان ہندکو) کے ساتھ اُس فن تعمیر کو بھی چھوڑ رکھا ہے‘ جو کبھی یہاں کی پہچان اور خصوصیت ہوا کرتی تھی۔ محمد یوسف خان المعروف دلیپ کمار (پیدائش 11 دسمبر 1922ء) اپنے بارہ بہن بھائیوں اور خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ 1930ء میں ممبئی (بھارت) منتقل ہوئے‘ جو بھارت کی فلمی صنعت (بالی ووڈ) کا مرکز ہے۔ محلّہ خداداد میں اُن کے آبائی گھر کو 13 جولائی 2014ء کے روز وزیراعظم نوازشریف نے قومی ورثہ قرار دیا اور 26 جولائی 2014ء کو جاری ہونے والے اعلامیے کی رو سے اُن کا گھر ’محفوظ قومی ورثہ‘ ہے۔ 1997ء میں دلیپ کمار کو ’نشان اِمتیاز‘ دینے کا اعلان کیا سال 1988ء میں جب دلیپ کمار پشاور کے دورے پر آئے تو اِس موقع پر پرل کانٹیننٹل ہوٹل کے سبزہ زار پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے پشاور سے متعلق اپنی چند یاداشتیں اُردو (ہندی) ہندکو اور پشتو زبان میں سنائیں جن کا تفصیلی ذکر اُن کی انگریزی زبان میں لکھی آب بیتی ’دی سبسٹینس اینڈ دی شیڈو (شائع جون 2014ء)‘ میں کیا گیا ہے۔ (روزنامہ آج کی ہفتہ وار اشاعت ’سنڈے میگزین‘ میں دلیپ کمار کی آب بیتی سے پشاور بارے اقتباسات ترجمہ کر کے شائع کئے جا چکے ہیں۔)