ترقیاتی عمل میں سست روی کے باعث جن منصوبوں اور حکمت عملیاں کو عملی جامہ پہنانے میں تاخیر اور اضافی اخراجات برداشت کرنا پڑے رہے ہیں‘ اُسے دور کرنا بھی ضروری ہے۔ اِس سلسلے میں ایک مثال ’تیمرگرہ میڈیکل کالج‘ کی ہے‘ جس کا افتتاح مختلف ادوار میں مختلف سیاسی شخصیات نے کیا لیکن تاحال اِس سے نتائج حاصل نہیں ہو رہے ۔ کالج کو پاکستان میڈیکل کمیشن اور دیگر متعلقہ حکومتی اداروں سے منظوری بھی تاحال نہیں مل سکی ہے البتہ بنیادی ضرورت کا سازوسامان خرید لیا گیا ہے۔ کالج کی فعالیت میں تاخیر کی ایک وجہ یہ بھی سامنے آئی ہے کہ جس انتظامیہ کو کالج بنانے کی ذمہ داری سونپی گئی اُس کی قابلیت و اہلیت اِس قدر نہ تھی کہ وہ منصوبے کے مختلف مراحل پر بیک وقت کام کرتی اور تعمیرات مکمل ہونے تک وہ تمام کاغذی کاروائیاں مکمل کر لی جاتیں جو کسی میڈیکل کالج کے قیام کیلئے ضروری ہوتی ہیں۔ تعجب خیز ہے کہ نجی شعبے میں میڈیکل کالج بننے میں چند ہفتوں یا زیادہ سے زیادہ مہینوں کا وقت لگتا ہے لیکن جب یہی کام حکومتی سطح پر کیا جائے تو اِس میں سالہا سال لگ جاتے ہیں۔ سرکاری ذرائع کے مطابق تیمرگرہ میڈیکل کالج کا منصوبے تکنیکی مشکلات کی وجہ سے تعطل کا شکار ہوا ہے‘ تاہم رکاوٹیں دور کر دی گئی ہیں اور آئندہ تعلیمی سال (2022ء) کے لئے داخلے شروع کر دیئے جائیں گے۔“ ساتھ ہی اس تاثر کی بھی نفی کر کی گئی ہے کہ ”مجوزہ کالج کی انتظامیہ نااہل ہے یا منصوبے کی تکمیل میں خاطرخواہ دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کر رہی۔“ دوسری طرف تعمیراتی کام کاج کے نگران ادارے ’کیمونیکیشن اینڈ ورکس ڈیپارٹمنٹ (سی اینڈ ڈبلیو)‘ کے مقامی (لوئر دیر) سربراہ‘ چیف ایگزیکٹو انجینئر کے بیان (دو جون) کے مطابق ”میڈیکل کالج کا تعمیراتی کام آخری مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔“پاکستان میڈیکل کمیشن (pmc.gov.pk) کے مطابق ”خیبرپختونخوا میں سرکاری میڈیکل کالجوں کی تعداد 10 جبکہ سرکاری ڈینٹل کالجوں کی تعداد 4 ہے جبکہ نجی شعبے میں قائم میڈیکل کالجز کی اِس کے دوگنا سے بھی زیادہ ہے اور ہر سال سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں طلبا و طالبات تمام تر ذہانت اور بہترین امتحانی و انٹری ٹیسٹ نتائج دینے کے باوجود داخلوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔ کسی ایک میڈیکل کالج کے قیام سے خیبرپختونخوا میں طب (میڈیکل اینڈ ڈینٹل) کی درسی و تدریسی کمی دور نہیں ہوگی کیونکہ ایک میڈیکل کالج میں زیادہ سے زیادہ 100 سے 250 طلبہ جبکہ ڈینٹل کالج میں 50 سے 100 طلبہ کو داخلہ دیا جا سکتا ہے۔ میڈیکل کی تعلیم کے کئی ذیلی شعبے بھی ہیں‘ جن میں تعلیم و تربیت کا آغاز کر کے بھی طلبہ کی ایک بڑی تعداد کے اطمینان و تسلی و تشفی کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔ صورتحال متقاضی ہے کہ اس مسئلے کے حل کیلئے’آؤٹ آف باکس سلوشن‘ کی جانب توجہ دی جائے مد نظر رکھا جائے کہ اربوں روپے کی لاگت سے سرکاری میڈیکل و ڈینٹل کالجوں کے قیام کی بجائے اگر پہلے سے موجود 10 میڈیکل اور 4 ڈینٹل کالجوں میں سیکنڈ شفٹ شروع کر دی جائے اور سرکاری میڈیکل کالجوں میں نشستوں کی تعداد بڑھائی جائے تو مجموعی طور پر اضافی 3 ہزار طلبہ کو میڈیکل و ڈینٹل کالجوں میں داخلے دیئے جا سکتے ہیں لیکن اِس کیلئے منصوبہ بندی‘ توجہ اور ترجیحات میں یک سوئی چاہئے۔ طب کی معیاری تعلیم کا بندوبست کرنے میں سیاحتی امکان بھی پوشیدہ ہے کہ اگر پاکستان سے ہر سال ہزاروں طلبہ چین اور وسط ایشیائی ریاستوں کے میڈیکل و ڈینٹل کالجز کا رخ کرتے ہیں تو اپنے ہاں ایسے تعلیمی اداروں کی تعداد کیوں نہیں بڑھائی جا سکتی یا کیوں نہیں بڑھائی جاتی جہاں میڈیکل کی تعلیم میں داخلوں کے خواہشمندوں کی قطاریں لگی رہتی ہیں اور بڑی تعداد میں طلبہ و طالبات ہر سال داخلہ نہ ملنے کی وجہ سے مایوس ہوتے ہیں۔ کورونا وبا کی وجہ سے جن خصوصی حالات میں درس و تدریس کا عمل آن لائن شروع کیا گیا ہے تواگر اربوں روپے کسی ایک کالج کی عمارت پر خرچ کرنے کی بجائے پیشہ وارانہ آن لائن تعلیم کا ایک صوبائی محکمہ تشکیل دے جائے تو بہتر ہوگا جو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی طرز پر فاصلاتی نظام تعلیم کی کمی پوری کر سکتا ہے۔ طب کی تعلیم کے دو شعبے علمی (کتابی) اور عملی (پریکٹیکل) تربیت ہوتی ہے جس کیلئے سرکاری ہسپتالوں سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے سرکاری ہسپتالوں کو میڈیکل و ڈینٹل تعلیم کے نجی اداروں کو ٹھیکے (اجارے) پر دیا گیا ہے لیکن اِن اداروں سے خود سرکاری میڈیکل و ڈینٹل کالجز خاطرخواہ استفادہ نہیں کر رہے۔ دور دراز علاقوں میں طب کی سہولیات پہنچانے کیلئے ’صحت کے بنیادی مراکز (بی ایچ یوز)‘ اور ڈسپنسریاں قائم کی جاتی ہیں جہاں ڈاکٹروں کی حاضری یقینی بنانے کیلئے جتن کرنے پڑتے ہیں لیکن اگر میڈیکل کالجز کے قیام‘ اِن کی وسعت اور بی ایچ یوز کو بھی تربیتی مراکز میں تبدیل کر دیا جائے اور طب کی تعلیم کے تربیتی مراحل ابتدائی‘ ثانوی اور اعلیٰ میں تقسیم کرتے ہوئے اساتذہ اور طلبہ کو پانچ سالہ تعلیم کے دوران مختلف جگہوں پر تعینات و مقرر کیا جائے تو اِس سے طب کے شعبے میں انقلابی تبدیلیاں آئیں گی‘ جن کی اشد ضرورت ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ صحت اور تعلیم کے حوالے سے صوبائی حکومت نے جو پالیسی اپنائی ہے اور جو اصلاحات کئے ہیں وہ یقینا ان شعبوں میں بہتری لانے کا باعث ہے تاہم اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے جس میں طب کا تدریسی شعبہ قابل ذکر ہے جہاں ہمیں دوسر وں صوبوں کا مقابلے کرنے کے لئے کئی موثر اقدامات اٹھانے ہوں گے تب ہی موجودہ اصلاحات اور تعلیم و صحت میں اٹھائے گئے اقدامات کے اثرات نمایاں طور پر ضائع ہوں گے۔