خبر آئی ہے کہ افریقی ملک سینی گال کی مرکزی جیل سے دس مرتبہ فرار ہونے والا ملزم ایک بار بھر جیل توڑنے میں کامیاب ہوگیا۔ 32سالہ بائے مودو فال کو فرار ہونے کا ماہرقرار دیا جاتا ہے۔فال دارالحکومت ڈاکار میں جیل کی کوٹھری کے گرل توڑتے ہوئے دیوار پھلانگ کر فرار ہوگیا۔جیل توڑنے کے بعد وہ ایک مقامی ٹی وی چینل کے دفتر پہنچ گیا۔ٹی وی چینل کو دیئے گئے اپنے انٹرویو میں اس نے بتایا کہ انھیں مقدمہ شروع ہونے سے پہلے پولیس حراست میں لیتی ہے ملک کا قانونی عمل مکمل ہونے اور انصاف ملنے میں بہت زیادہ وقت لگ رہا ہے اور وہ اپنا قیمتی وقت جیل کی کوٹھری میں ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ اس لئے اس نے معاملات خود اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کیا۔انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ دن ہو یا رات کسی بھی وقت قیدسے فرار ہو سکتا ہے اس نے انٹرویو میں یہ یقین دہانی کرائی کہ مقدمے کی سماعت کی تاریخ طے ہونے پروہ خود عدالت پہنچ جائے گا۔فال کے فرار ہونے پر جیل کے سربراہ کا بھی تبادلہ کر دیا گیا۔ فال پر عائد الزامات سے متعلق ان کے وکیل نے بتایا کہ فال کو کئی بار مقدمات میں قید کیا گیا مگر تفصیلات نہیں بتائی گئیں انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ کسی ملزم کو پکڑنے کے چوبیس گھنٹوں کے اندر اس پر الزامات پر مبنی چالان عدالت میں پیش کیا جائے عدالت ملزم کو اپنی صفائی پیش کرنے کا ایک موقع فراہم کرے اگر وہ عدالت کو مطمئن نہ کرسکے تو اسے سزا سنائی جائے۔ اس کام میں زیادہ سے زیادہ ہفتہ دس دن لگ سکتے ہیں۔ مگر دنیا کے تقریباًتمام ترقی پذیر ملکوں میں پولیس تفتیش اور انصاف کی فراہمی کے نظام میں سقم موجود ہے۔ معمولی نوعیت کے مقدمات کا فیصلہ آنے میں برسوں لگ جاتے ہیں اور وہاں جیلوں میں ایسے ہزاروں قیدی موجود ہیں جو سزا پوری کرنے کے باوجودبعض وجوہات کی بناء پر سلاخوں کے پیچھے زندگی کے دن گن رہے ہیں سینی گال کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے کہ جہاں پر عدالتی نظام میں انصاف کے حصول میں تاخیر کا سامنا ہوتا ہے اور خود وہاں کی اعلیٰ عدالتوں کے ججوں نے بھی تفتیشی نظام اور نظام انصاف پر بار ہا سوالات اٹھائے ہیں۔ اور اس حوالے سے اصلاحات کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں۔ افریقی ممالک میں بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے حالات زیادہ سازگار نہیں ہے اور وہاں پر جیلوں کی حالت زار پر بھی عالمی اداروں کی طرف سے تنقید کی جاتی ہے یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ قدرتی وسائل اور معدنیات سے مالامال افریقی ممالک میں معاشی حالات بھی دگرگوں ہیں اور زیادہ تر آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے جبکہ زیادہ تر ممالک میں حکومتی عہدیدار ہی ملکی دولت کا بڑا حصہ اپنی پرتعیش زندگیوں پر صرف کرتے ہیں۔