پشاور کہانی: انتخابی مفادات۔۔۔۔۔۔

صوبائی دارالحکومت پشاور میں یوں تو پانی کی قلت سارا سال ہی رہتی ہے تاہم اِس کی شدت موسم گرما میں زیادہ محسوس کی جاتی ہے جس کی بنیادی وجہ انتظامی خرابیاں اور فیصلہ سازی کے مراحل میں خاطرخواہ غوروخوض کی کمی ہے۔ تصویر کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ پشاور میں پانی کی قلت نہیں لیکن شہریوں کو جس وافر مقدار میں پانی کی بلاضرورت بھی ضرورت رہتی ہے‘ اُسے پورا کرنا اور شہریوں کی توقعات پر پورا اُترنا آسان نہیں۔ اِس مرحلہئ فکر پر صرف اشارتاً ایک بات کا تذکرہ کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں کہ پشاور میں پانی استعمال کرنے والے صارفین کو 3 درجات میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ڈومیسٹک‘ کمرشل اور ایکوافیر (ازخود کھدائی سے حاصل کردہ پانی)۔ اِن تینوں میں سے کمرشل اور ایکوافیر کنکشنوں سے متعلق حکمت ِعملی اور نرخ نامے تاحال طے نہیں ہو سکے اور عرصہ دراز سے صوبائی حکومت نے اِن سے متعلق ’واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسز پشاور (ڈبلیو ایس ایس پی)‘ کی سفارشات سرد خانے کی نذر ہیں۔پشاور میں پانی کی فراہمی کا ایک پہلو (تعلق) سیاسی بھی ہے جسے سمجھنے کے لئے اُس مقدمے کی تفصیلات کو دیکھنا ہوگا جو اِن دنوں عدالت ِعالیہ (پشاور ہائی کورٹ) میں زیرسماعت ہے مقدمہ میں ’ڈبلیو ایس ایس پی‘ کو فریق بناتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما غلام بلور نے اُن 13ٹیوب ویلوں کے بارے میں عدالت کی توجہ چاہی ہے جو بقول اُن کے تیار ہو چکے ہیں لیکن مبینہ سیاسی مخالفت کے باعث اِن ٹیوب ویلوں کو فعال نہیں کیا جا رہا۔ چیف جسٹس قیصر رشید خان اور جسٹس سیّد عتیق شاہ دونوں فریقین (عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما اور حکومتی اداروں) کا مؤقف سن رہے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سابق رکن اسمبلی کے وکیل طارق منصور نے ایک موقع پر عدالت کو بتایا کہ جن 5 ٹیوب ویلوں کو یہ کہتے ہوئے فعال نہیں کیا جارہا کہ وہ نجی اراضی پر تعمیر ہیں اور اُن کے مالکان سرکاری نوکریاں طلب کر رہے ہیں درحقیقت وہ اراضی سرکاری ہے اور مذکورہ پانچ ٹیوب ویل قبرستانوں کی زمین پر بنائے گئے ہیں۔ لائق توجہ ہے کہ معزز وکیل نے فاضل جج صاحبان کے سامنے اعتراف کیا کہ پشاور کے قبرستانوں کی اراضی پر ٹیوب ویل بنائے گئے ہیں جبکہ اِس سلسلے میں عدالت عالیہ کے دو فیصلے لائق توجہ ہیں۔ پہلا فیصلہ یہ ہے کہ کسی بھی سرکاری منصوبے (سکول کالج یا ٹیوب ویل کی تنصیب وغیرہ) کے لئے اراضی اِس وعدے پر نہ لی جائے کہ اِس کے عوض سرکاری ملازمت دی جائے گی اور دوسرا قبرستانوں میں ہر قسم کی تعمیرات (تجاوزات) خلاف قانون ہیں!یادش بخیر ’ڈبلیو ایس ایس پی‘ نے سال 2018ء میں 3 تفصیلی جائزوں (کنزیومر بیسڈ سروے‘ پشاور ماسٹر پلان اور پشاور بزنس پلان) پر کام شروع کیا‘ جس کے لئے سوئس حکومت کے امدادی ادارے (ایس ڈی سی) نے مالی و تکنیکی وسائل فراہم کئے تھے۔ یہ جائزے سال 2019-20ء میں مکمل ہوئے اور تب سے یہ صوبائی حکومت کے سامنے زیرغور ہیں! لمحہئ فکریہ ہے کہ حکومت ادارے تو بنا دیتی ہے لیکن اِن مبینہ خودمختار اداروں کے کام کاج سے متعلق حکمت عملیاں وضع کرنے میں خاطرخواہ دلچسپی نہیں لیتی۔ پشاور کی ترقی کے لئے ”10 سالہ جامع حکمت عملی“ بعنوان ”پشاور ماسٹر پلان“ امریکی حکومت کے امدادی ادارے ’یو ایس ایڈ‘ نے بھی تشکیل دے رکھی ہے جس کے تحت پشاور کے شہری و دیہی علاقوں میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی‘ نکاسیئ آب‘ گندگی (کوڑا کرکٹ) اکٹھا کرنے اور ٹھکانے لگانے (کوڑا کرکٹ تلفی) کے لئے لائحہ عمل شامل ہے۔ مذکورہ حکمت عملی کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ 10 سال میں مذکورہ سہولیات کی فراہمی (ترقیاتی امور) پر توجہ دی جائے۔ 69 صفحات پر مشتمل امریکی حکمت عملی کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے چوتھے باب میں پانی کی فراہمی کو موضوع بناتے ہوئے تعارف میں کہا گیا ہے کہ ”پشاور میں پانی کی فراہمی کا بنیادی ذریعہ ٹیوب ویلز ہیں جن کی کل تعداد 732 ہے (ڈبلیو ایس ایس پی ذرائع کے مطابق اُن کی حدود میں 526 ٹیوب ویل ہیں۔) اِن ٹیوب ویلوں میں سے312 ٹیوب ویل (42فیصد) کی عمریں 15 سال سے زیادہ ہیں۔ 398 ٹیوب ویلز کی عمریں پندرہ سال سے کم ہیں جن میں سے 22 مختلف ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں میں لگائے گئے ہیں جبکہ 21 ٹیوب ویلوں کی عمر سات سال یا اِس سے کم ہے۔ اِن ٹیوب ویلوں میں سے 392 ایسے ہیں جن سے اخراج ہونے والے پانی کی پیمائش کے آلات (فلو میٹرز) نصب نہیں جبکہ جن 6 ٹیوب ویلوں پر یہ فلو میٹرز نصب ہیں لیکن صرف ایک ٹیوب ویل پر ’فلو میٹر‘ کام کر رہا ہے۔“منصوبہ بندی کے فقدان اور بے ہنگم ترقیاتی عمل کی وجہ سے پشاور میں پانی کی قلت عام ہے اور پانی جیسی نعمت کا خاطرخواہ احترام بھی نہیں کیا جا رہا۔ خلاصہئ کلام یہ ہے کہ پشاور میں ہر شخص کو اُس کی ضرورت سے زیادہ پانی چاہئے جبکہ پشاور کیلئے پانی کی فراہمی کے لئے زیرزمین ذخیرے پر انحصار سے زیرزمین پانی کی سطح کم ہو رہی ہے۔ اہل پشاور کے معمولات میں گھروں اور گلی کوچوں کو دھونا‘ پانی کا چھڑکاؤ اور پانی کا بے انتہا و غیرمحتاط گھریلو استعمال ہے۔ دوسری طرف دکانداروں اور تاجروں کی اکثریت ٹیوب ویلوں سے فراہم ہونے والا پانی مختلف مقاصد کیلئے استعمال تو کرتے ہیں لیکن یہ متعلقہ محکمے (واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسز پشاور ’ڈبلیو ایس ایس پی‘) کے صارف نہیں۔ صبح سے رات گئے تک بازار کھلے رہتے ہیں جہاں دکاندار اپنی اور گاہگوں کی ضروریات کے لئے پانی حاصل کرتے ہیں لیکن چونکہ اِس بارے میں کسی بھی قسم کی حکمت عملی (بشمول نرخنامہ) موجود نہیں‘ اِس لئے تاجر و کاروباری برادری ’مفت کا پانی‘ (بصورت مال مفت دل بے رحم) استعمال کر رہی ہے اور متعلقہ محکمہ (ڈبلیو ایس ایس پی) بھی تجاہل عارفانہ (خاموشی) اختیار کئے ہوئے ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ ایک ٹیوب ویل اگر یومیہ دو دو گھنٹوں کے وقفے سے آٹھ گھنٹے (چار اُوقات) چلایا جائے تو اِس سے پانچ ہزار آبادی کی ضروریات کیلئے پانی کی فراہمی صرف اُس صورت ممکن ہو سکتی ہے جبکہ پانی کا ترسیلی نظام (پائپ لائنز)  انتظامی ترجیحات کو مدنظر رکھتے ہوئے بچھایا گیا ہو۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پشاور میں پانی کے معیار پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور شہریوں کو فراہم ہونے والا پانی حفظان صحت کے کئی اصولوں کے خلاف ہے اکثر پانی فراہمی کے پائپ نکاسی آب کے نالوں میں سے گزرے ہوئے ہیں جن میں گندا پانی رس رس کر پینے کے پانی میں شامل ہوتا جا رہا ہے اورمختلف امراض کا باعث بن رہا ہے۔