کورونا وبا کے دور میں جہاں قوت مدافعت بڑھانے کیلئے متوازن خوراک اور صحت مند طرز زندگی بسر کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے وہیں معالجین ہر عمر کے لوگوں کو ہڈیوں کی مضبوطی کیلئے دودھ اور دودھ سے بنی ہوئی مصنوعات (دہی‘ مکھن‘ گھی) کے استعمال کا مشورہ دیتے ہیں کیونکہ یہ کیلشیم‘ فاسفورس‘ وٹامنز (بی اور ڈی)‘ پوٹاشیم اور جسم کیلئے ضروری چربی کے حصول کا ذریعہ ہے لیکن بدقسمتی سے دودھ جیسی نعمت کا خالص حصول ’جوئے شیر‘ لانے کے مترادف (مشکل و ناممکن) ہو چکا ہے۔پشاور میں دودھ کا سرکاری نرخ 120روپے فی لیٹر مقرر کرنے کو زیادہ دن نہیں گزرے کہ دودھ فروشوں نے ایک مرتبہ پھر دودھ کے نرخوں میں اضافہ کر دیا ہے جبکہ دوسری خبر یہ ہے کہ ازخود نظرثانی شدہ قیمتوں پر عمل درآمد کرنے والوں کو اپنے خلاف کسی قانونی کاروائی کا خوف بھی نہیں! فی الوقت تین اقسام کے دودھ فروخت کئے جا رہے ہیں جن کی قیمتیں بالترتیب ایک سوتیس‘ ایک سو چالیس اور ایک سو پچاس روپے فی لیٹر مقرر کی گئی ہیں۔ ازخود مقرر کی جانے والی اِن قیمتوں اور درجہ بندی کا تعلق ”دودھ کے معیار“ سے ہے تاہم یہ معلوم نہیں کہ دودھ کا یہ معیار کیا ہے!؟ اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم ’فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن (fao.org) کے مطابق ”گائے (cow) کے دودھ میں 3 سے 4 فیصد ٹھوس دودھ‘ ساڑھے تین فیصد لحمیہ (پروٹین)‘ 5 فیصد قند ِشیر (Lactose) اور پانچ سے چھ فیصد کے درمیان چربی (fat) کے اجزأ ہونے چاہیئں۔ بھینس (buffalo) کے دودھ میں گائے کے مقابلے چربی کی مقدار دوگنی ہوتی ہے۔“ تشویشناک بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں دودھ کی فطری کیمیائی حالت (87 فیصد پانی اور 13 فیصد مختلف ٹھوس غذائی اجزا بشمول معدنیات) کا تناسب تبدیل کر دیا جاتا ہے یعنی اضافی پانی اور مضرصحت کیمیائی مادے شامل کر کے دودھ کی مقدار اور گاڑھے پن میں ایسا اضافہ کیا جاتا ہے کہ وہ انسانی استعمال کے قابل (مفید) ہی نہیں رہتا!خیبرپختونخوا کے فیصلہ سازوں کو ’سندھ ہائی کورٹ‘ میں زیرسماعت ایک مقدمے میں پیش ہونے والے دلائل کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ یہ مقدمہ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس امجد علی سہتو کی عدالت میں سنا جا رہا ہے‘ جس میں 7 مئی 2021ء کے روز کراچی کے ایڈیشنل کمشنر پیش ہوئے اور اُنہوں نے تجویز پیش کی کہ قیمتوں پر کنٹرول کرنے کیلئے سبزی و پھلوں کی طرح دودھ کی قیمت بھی ہر روز مقرر کی جا سکتی ہے کیونکہ جب دودھ فروخت کرنے والوں کی نمائندہ تنظیم ڈپٹی کمشنر کے ساتھ مذاکرات کرنے کے بعد کسی ایک قیمت پر متفق ہو جاتی ہے تو اُس پر زیادہ دن عمل درآمد نہیں کرتی۔ ذہن نشین رہے کہ کراچی میں دودھ کی فی لیٹر قیمت 94 روپے مقرر ہے۔“ پشاور جیسے صوبے کے مرکزی شہر میں خوراک کے معیار کی پابندی نہیں کی جار ہی تو دور دراز اضلاع اور بالخصوص دیہی علاقوں کی صورتحال کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں ہے جہاں عوام نہ صرف گراں فروشوں بلکہ ملاوٹ کرنے والوں کے رحم و کرم پر ہیں استعمال کی اشیائے خوردونوش مثلاً مصالحہ جات‘ چینی‘ خشک چائے‘ گھی اورخوردنی تیل وغیرہ کی طرح دودھ (محلول) میں ملاوٹ کے تناسب سے الگ الگ درجہ بندی کی گئی ہے اور انتظامیہ خاموش ہے کہ دودھ تو دودھ ہوتا ہے یہ ایک دو اور تین نمبر والا دودھ کیا ہے؟ کیوں ہے؟ یہاں ایک اور نکتہ بھی توجہ طلب ہے کہ ایک وقت تھا جب دودھ میں صرف پانی کی ملاوٹ کی جاتی تھی لیکن اب ایسے مضر صحت کیمیائی مادے دودھ میں شامل کئے جا رہے ہیں جو اِسے انسانی استعمال کیلئے صرف مضر نہیں بلکہ اِنتہائی مضر بنا دیتے ہیں۔ جیسا کپڑے دھونے کا سرف (جو جھاگ پیدا کرتا ہے اور صارفین سمجھتے ہیں کہ یہی دودھ خالص ہے)‘ حشرات الارض کو مارنے والی ادویات‘ جانوروں کو دی جانے والی ادویات‘ بھاری دھاتیں‘ ریڈیونیوکلاڈیس اور ماکوٹوزینز وغیرہ دودھ میں شامل کئے جاتے ہیں تاکہ اِس کے خراب ہونے کی مدت بڑھائی جا سکے۔ دودھ اور دہی کو گاڑھا کرنے والے کیمیائی مادوں میں وہ محلول بھی شامل ہیں جو جانوروں اور انسانی اعضا کو گلنے سڑنے (خراب ہونے) سے بچانے کیلئے تجربہ گاہوں (لیبارٹریز) میں استعمال کئے جاتے ہیں۔ ایک عام صارف جو دودھ کی زیادہ سے زیادہ اور من چاہی فی لیٹر قیمت ادا کرنے کیلئے تیار ہے لیکن اسے خالص اور صحت مند دودھ ملنے کی ضمانت نہیں اور خالص دودھ کا حصول ایک عام صارف کیلئے ناممکن حد تک دشوار ہو چکا ہے۔