اردو: دھوم ہماری زباں کی ہے! 

 اُردو زبان کو کسی اضافی شناخت کی نہیں بلکہ شایان شان (حقیقی) مرتبے (مقام) کی ضرورت ہے اور اِس ضرورت کا احساس بطور مطالبہ ایک مرتبہ پھر سامنے آیا ہے‘ جس کا تذکرہ کرنے سے پہلے یہ کثیرالجہتی بحث بھی ذہن نشین رکھیں کہ ”1: اُردو زبان کو اِس کا حقیقی مقام ملنا چاہئے۔ 2: اُردو زبان کو عالمی زبان سمجھا جائے اور 3: اُردو زبان کو دیگر عالمی زبانوں سے کم تر نہ سمجھا جائے۔“ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ ”اُردو بولنے والوں کی اکثریت اُردو مخالف نہیں بلکہ اُردو بولنے والوں کی اکثریت پر حکومت کرنے والے سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ سازوں کی اکثریت کی کوشش ہے کہ اُردو زبان کو اِس کی قومی حیثیت کے مطابق مقام نہ ملے۔ حکمراں تحریک انصاف کے ’نئے پاکستان‘ میں قومی زبان ”اُردو“ کو اُس کا اصل مقام ملنے کی جانب کچھ پیشرفت ہوئی ہے جس کا ذکر ضروری ہے۔پہلی پیشرفت: کینیڈا میں تعینات پاکستان  کے سفیر (ہائی کمشنر) نے کینیڈین وزارت خارجہ کے نام ایک خط میں تجویز کیا ہے کہ اردو زبان کو انفرادی طور پر قومی زبانوں کی فہرست میں شامل کیا جائے اور ’کینیڈین مردم شماری 2021ء‘ میں پنجابی زبان کی 2 شاخوں (شاہ مکھی اور گرمکھی) کو کینیڈا کی قومی زبانوں کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے لیکن اُنہیں الگ الگ زبانوں کے طور پر الگ الگ شناخت دی جائے کیونکہ اِن کے رسم الخط اُردو اور ہندی سے مختلف ہیں۔ مکتوب میں اِس حقیقت کا حوالہ بھی دیا گیا ہے کہ کینیڈا میں مقیم کئی پاکستانی نژاد و دیگر اور کینیڈا کے پیدائشی معروف و غیرمعروف لوگ اُردو زبان بولتے‘ لکھتے اور سمجھتے ہیں اِس لئے اُردو زبان کی حیثیت کو بھی سرکاری طور پر تسلیم کیا جائے۔دوسری پیشرفت: نیشنل ہیلتھ سروسز کی پارلیمانی سیکرٹری ڈاکٹر نوشین حامد نے سوشل میڈیا کے ذریعے ایک اعلامیہ جاری کیا جو وزیراعظم کے سیکرٹری اعظم خان کے دستخطوں سے جاری ہوا اور اِس اعلامیے پر 3 جون 2021ء کی تاریخ درج ہے لیکن یہ پیشرفت فوراً خبروں میں نہیں آئی۔ پانچ سطری اعلامیہ میں لکھا گیا کہ وزیراعظم پاکستان کی خواہش کے مطابق ”آئندہ وزیراعظم کے اعزاز میں منعقد ہونے والی تمام اعلیٰ سطحی تقاریب اور سرگرمیوں کی کاروائی قومی زبان اُردو میں ہونی چاہئے۔“  کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ افسر شاہی (بیوروکریسی) کسی بھی صورت اردو زبان کو اُس کا جائز مقام نہیں دینا چاہتی اور یہ بالکل وہی صورتحال ہے جب برصغیر (پاک و ہند) پر برطانوی راج قائم ہونے کے بعد یہ محاورہ عام کیا گیا کہ ’پڑھو فارسی بیچو تیل۔‘  برطانوی راج کے دوران 1837ء میں اُردو کو برصغیر کیلئے ’قومی زبان‘ کا درجہ دیا گیا تھا‘ جسے قیام پاکستان کے بعد بحال رکھا گیا۔اُردو زبان کو برطانوی راج (1858ء سے 1947ء) یا اِس سے قبل ’اِیسٹ انڈیا کمپنی‘ کے دور (1757ء سے 1858ء) کے دوران نہیں بلکہ 1193ء میں اُس وقت برصغیر کی ایک قومی زبان کا درجہ دیا گیا‘ جب مسلمانوں نے دہلی پر قبضہ کیا تھا۔ حقیقت یہی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد جس قدر لسانی تعصبات عام ہوئے ہیں اُنہیں کم کرنے اور قومی سطح پر وفاق کی چاروں اکائیوں (صوبوں) کو ایک دوسرے کے قریب رکھنے میں اگر کوئی ایک زبان ’مؤثر رابطہ کاری‘ اور ’قربت و مؤدت‘ کا کردار ادا کر سکتی ہے تو وہ صرف اُردو ہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کے تمام ممالک میں رابطے کی ایک زبان ہوتی ہے جس میں وہ نہ صرف آپس میں بلکہ بیرونی دنیا کے ساتھ بھی رابطہ کاری کرتے ہیں اقوام عالم میں جو ممالک بام عروج پر ہیں اور ترقی کے منازل طے کر چکے ہیں وہ قومی زبان کی قدر اور اہمیت کا احساس کر کے ہی اس مقام پر فائز ہیں‘ اور ہر مرحلے پر وہ اپنی قومی زبان میں ہی اظہار خیال کرتے ہیں چاہے وہ اقوام متحدہ کا عالمی فورم ہو یا پھر سربراہان مملکت کے ساتھ باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال ہو وہ ترجمان کے ذریعے اپنی زبان میں بات کرنے کو ترجیح دیتے ہیں‘ اور اپنی زبان میں بات کرنے میں اپنی شان سمجھتے ہیں‘تجربہ شرط ہے کہ ”اُردو ہے جس کا نام ہم ہی جانتے ہیں داغؔ …… ہندوستاں (سارے جہاں) میں دھوم ہماری زبان کی ہے! (داغ دہلوی)۔“