پاکستان میں طب کی تعلیم سے متعلق رواں ہفتے غیرمعمولی پیشرفت یہ دیکھنے میں آئی ہے کہ چین پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن بنائی گئی ہے جو اقتصادی راہداری کی طرز پر ’چائنا پاکستان ہیلتھ کوریڈور‘ کا حصہ ہے اور اِس کے دونوں ممالک میں طب کی تعلیم کے مختلف شعبوں میں تعاون کو مربوط‘ مضبوط اور پہلے سے زیادہ وسیع کیا جائے گا۔ ذہن نشین رہے کہ ’چائنا پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن‘ ایک غیرسرکاری اور رضاکاروں پر مشتمل تنظیم ہے جو طب کی تعلیم کے مراحل‘ طبی شعبے میں تحقیق‘ ایجادات‘ ترقی و تربیت اور قائدانہ صلاحیتوں کے فروغ کی غرض سے بنائی گئی ہے تاکہ طب کے شعبے میں چین کے تجربات اور وسائل سے پاکستانی طلبہ اور پیشہ ور فائدہ اُٹھا سکیں۔ چین کی جانب سے پاکستان کے ہر شعبے کیساتھ تعاون کیا جا رہا ہے اور رواں برس بالخصوص جبکہ چین اور پاکستان کے سفارتی تعلقات کے 70 سال مکمل ہوئے ہیں جبکہ چین کی جانب سے ’بیلٹ اینڈ روڈ انشی ایٹو‘ نامی کثیرالمقاصد تجارتی و ترقیاتی حکمت عملی کے بھی 8 سال مکمل ہوئے ہیں تو دونوں ممالک کے فیصلہ سازوں نے طب کی تعلیم کے شعبے میں بھی تعاون کو منظم کرنیکی ضرورت محسوس کی ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ طب کے شعبے میں پاکستان چین سے کیا سیکھ سکتا ہے اور چین طب کے کن شعبوں میں پاکستان کی مدد کرنے کیلئے تیار ہے؟ اِن سوالات کا جواب تلاش کرنا نہایت ہی آسان ہے اگر صرف اعدادوشمار پر نظر کی جائے۔ چین میں 80 لاکھ افراد طب کے شعبے میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں جن میں 30 لاکھ ڈاکٹر‘ 8 لاکھ سرجنز‘ 6 لاکھ نرسیں اُور27 ہزار 215 ہسپتال ہیں۔ اگر پاکستان اور چین کے درمیان ایک دوسرے سے ڈاکٹروں کے تبادلے تشکیل دیدیا جاتا ہے تو اِس سے اُن طلبہ اور ڈاکٹرز کو بھی فائدہ اُٹھانے کا موقع ملے گا جو پاکستان یا چین کے علاوہ کسی دوسرے ملک سے طب کی تعلیم حاصل کر چکے ہیں یا تعلیمی مراحل طے کر رہے ہیں۔ اگرچہ پاکستان میں ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیم ’پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن‘ کا اِس پورے منظرنامے اور چین کے ساتھ طب کے تعلیمی شعبے میں تعاون و قربت میں کوئی کردار یا موجودگی دکھائی نہیں دے رہی لیکن اگر حکومت چین کی جانب سے اِس ’فراخدلانہ پیشکش‘ کو نجی تنظیموں کے حوالے کرنیکی بجائے اگر اِس کی خود سرپرستی کرے اور دفترخارجہ کا کردار نگرانی سے بڑھایا جائے تو اِس سے خاطرخواہ فائدہ اُٹھانا ممکن ہے۔ یہی مناسب موقع ہے کہ ماضی میں پاک چین دوستی اور دونوں ممالک کے درمیان تجارت و تعاون کیلئے بنائی جانے والی نجی تنظیموں کی کارکردگی کا بھی جائزہ لیا جائے جو اندرون اور بیرون ملک پورے پاکستان کی نمائندگی کر رہی ہوتی ہیں لیکن اِن میں سالہا سال سے چند افراد مسلط ہیں جو اپنے ذاتی مفادات اور سیروتفریح کیلئے سفارتی وسائل کا استعمال کر رہے ہیں۔ پاکستان اور چین کی دوستی اگر ہمالیہ سے بلند‘ سمندروں سے گہری اور شہد سے زیادہ میٹھی ہے تو اِس دوستی کی آڑ میں ہونے والی وارداتوں پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ چین کی جانب سے خیرسگالی کے اظہار سے غیرمتعلقہ اور چند مخصوص طبقات ہی فائدہ نہ اُٹھائیں۔ چین میں پاکستان کے 7500 طلبہ طب کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور اگر سال 2001ء سے چین کی طبی جامعات و درسگاہوں سے فارغ التحصیل ہونے والے پاکستانیوں سے متعلق اعدادوشمار کا ذکر کیا جائے تو 15 ہزار طلبہ چین سے طب کی تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔ اِن میں اکثریت ’بیچلر آف میڈیسن‘ بیچلر آف سرجری المعروف ایم بی بی ایس کی ڈگریاں حاصل کی ہیں جبکہ پاکستانی طلبہ کی ایک تعداد چین سے ’ڈاکٹر آف فلاسفی کی تعلیم بھی مکمل کرتی ہے اور اِن سبھی طلبہ کو چین میں دوران تعلیم جن مشکلات و پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اُنہیں دور کرنے کیلئے الگ سے نظام ہونا چاہئے کیونکہ صرف سفارتخانوں کے وسائل اور تعینات سفارتی عملے کی دلچسپی پر اکتفا نہیں کیا جاسکتا جو ہمیشہ وقت پڑنے پر ناکافی ثابت ہوتی ہیں اور چین میں زیرتعلیم طلبہ کو پاکستانی سفارتخانوں کے عملے سے ہمیشہ شکایات‘ گلے شکوے اور انکے کام کاج بارے تحفظات رہتے ہیں۔ سال دوہزار بیس تک پاکستان میں رجسٹرڈ میڈیکل ڈاکٹروں کی تعداد 2 لاکھ 81 ہزار 72 رہی اور اِن ڈاکٹروں کی اکثریت کو طب کے شعبے میں عملی تربیت اور علاج میں استعمال ہونیوالے جدید آلات کی تربیت کی ضرورت ہے۔ چین پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی جانب سے تجویز کیا گیا ہے کہ ”پاکستان میڈیکل کمیشن‘ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسیز‘ کالج آف فزیشنز‘ سرجنز اور آف پاکستان اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی“ مل کر طب کی تعلیم اور چین میں طب کی عملی تربیت کے مواقعوں سے فائدہ اُٹھانے کیلئے لائحہ عمل تشکیل دیں۔ چین کے 84 ہسپتالوں میں 102 ایسے روبوٹ کام کر رہے ہیں جو عمومی اور پیچیدہ آپریشنز کرتے ہیں اور پاکستان میں مشینوں کے ذریعے اگرچہ علاج ہوتا ہے لیکن یہ مکمل طور پر خودکار نہیں ہوتا جبکہ روبوٹک جراحت میں طب کی سہولیات مسلسل فراہم کی جا سکتی ہیں کیونکہ روبوٹ تھکتے نہیں اور اُنہیں انسانوں کی طرح جسمانی اور ذہنی آرام یا استراحت کی بھی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ اگر پاکستان چین سے روبوٹک علاج معالجہ درآمد کرے اور اِس جدید طریقہ علاج سے متعلق پاکستانی ڈاکٹروں کی چین میں تربیت کا انتظام کیا جائے تو اِس سے تعلیم و تربیت اور روبوٹک علاج معالجے میں پاکستان کے ذہین ڈاکٹروں کی رائے و تجربہ بھی شامل ہو جائے گا۔ اس سلسلے میں ’چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبوں میں شامل ہسپتالوں کا انتخاب کرتے ہوئے وہاں چین کے ڈاکٹر اور ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے سے ابتدا کی جائے‘ نیز ’سی پیک‘ کے راستوں پر نئے ہسپتال بنا کر اُن سے تدریسی مقاصد حاصل کئے جا سکتے ہیں اور یہ سارے کام حکومت کے کرنے کے ہیں۔ نجی ادارے اور تنظیمیں جتنا زیادہ اور جس قدر باہم مربوط ہو کر بھی سوچ بچار کریں وہ ادھورا ہی رہتا ہے کیونکہ بشری کمزوریوں اور پاکستان میں رائج ایک خاص سوچ کی وجہ سے فیصلہ سازی میں کہیں نہ کہیں ذاتی مفادات آڑے آتے ہیں۔