چوبیس مئی دوہزار اکیس: قومی اسمبلی اجلاس کے دوران ایوان کو بتایا گیا کہ قومی سطح پر یکساں نصاب تعلیم رواں برس ’اگست‘ تک نافذ کر دیا جائے گا۔ یہ نصاب تعلیم پہلے مرحلے میں پانچویں جماعت (پرائمری) سطح تک کیلئے ہوگا۔ پارلیمانی سیکرٹری برائے وفاقی تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت وجیہہ اکرم نے ’وقفہئ سوالات‘ کے دوران حکومت کا مؤقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ پرائمری کی سطح تک یکساں نصاب تعلیم پورے ملک میں رائج کرنے کے لئے وفاق نے صوبوں کو اعتماد میں لے لیا ہے۔ دوسرے مرحلے میں چھٹی سے آٹھویں جماعت (مڈل) کی سطح تک کا یکساں نصاب ترتیب دیا جائے گا جبکہ نویں سے بارہویں (انٹرمیڈیٹ) کی سطح تک یکساں نصاب تعلیمی سال 2023-24ء تک متعارف (لاگو) کر دیا جائے گا۔سات جون دوہزاراکیس: خیبرپختونخوا قانون ساز اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی وزیر برائے تعلیم شہرام تراکئی نے یکساں نصاب تعلیم مرحلہ وار نافذ کرنے کیلئے تیاریوں کا ذکر کرتے ہوئے اِس تاثر کو غلط قرار دیا کہ وفاقی حکومت ’یکساں نصاب تعلیم‘ متعارف کرانے کی جلدی میں صوبائی اختیارات میں مداخلت کر رہی ہے۔ خیبرپختونخوا اسمبلی میں حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی کا مؤقف ہے کہ وفاقی حکومت پورے ملک میں یکساں نصاب تعلیم رائج کرنا چاہتی ہے جو اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو حاصل خودمختاری میں مداخلت ہے۔ ذہن نشین رہے کہ 8 اپریل 2010ء (اٹھارہویں آئینی ترمیم کی منظوری) کے بعد سے تعلیم سے متعلق جملہ فیصلے اور حکمت عملیاں صوبائی حکومتوں کا اختیار ہے جس میں نصاب تعلیم سے متعلق فیصلہ بھی شامل ہے۔شاعر ساغر خیامی کا تصور مستعار لیتے ہوئے حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی کیلئے دعوت فکر ہے کہ وہ یکساں نصاب تعلیم کے معاملے پر حکومت کے ہم قدم رہیں کیونکہ یہ کسی ایک سیاسی جماعت اور انتخابی منشور کا نہیں بلکہ قومی مسئلہ ہے۔ ”پتا چلا نہ مسافت کا پا گئے منزل …… قدم سے جب بھی قدم دوستو ملا کے چلے۔“ یکساں نصاب تعلیم رائج کرنے کا مطالبہ نیا نہیں بلکہ ایک عرصے سے ماہرین تعلیم اُن نتائج اور شرح خواندگی کے سکڑتے ثمرات کو مدنظر رکھتے ہوئے کر رہے ہیں‘ جو طبقات کو جنم دے رہا ہے۔ محرومیوں میں اضافہ کر رہا ہے اور خواندگی کی شرح میں اضافے کے باوجود قومی شعور (احساس) اور ذمہ داری کا خسارہ عام ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ تحریک انصاف نے اِس موضوع کو اپنے انتخابی منشور کا حصہ بنایا جبکہ دیگر جماعتوں نے بھی اگر جولائی دوہزاراٹھارہ کے عام انتخابات کے موقع پر یکساں نصاب تعلیم کی بات نہیں کی لیکن اُنہوں نے تعلیمی اصلاحات کا قوم سے وعدہ ضرور کیا۔ البتہ تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ تحریک نے شروع دن سے یکساں نصاب تعلیم بارے مؤقف کی کھل کر حمایت (وکالت) کی ہے اور چاہتی ہے کہ ملک میں یکساں نصاب تعلیم رائج ہونا چاہئے کیونکہ ایسا کرنے کے بغیر شعبہئ تعلیم سے وابستہ توقعات اور اُمیدیں پوری نہیں ہوں گی۔ یہ بات شک و شبے سے بالاتر ہے جس کا اظہار کرتے ہوئے صوبائی وزیر شہرام تراکئی نے ایوان کی توجہ اِس جانب مبذول کروائی ہے کہ تعلیم میں پائی جانے والی اونچ نیچ کو ختم کرتے ہوئے سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں یکساں نصاب تعلیم ہی بہت سارے قومی مسائل کا حل ثابت ہوگا‘ جس میں قوت ِاخوت ِعوام بھی شامل ہے۔ مقام شکر ہے کہ قومی اور صوبائی فیصلہ ساز یکساں نصاب تعلیم کے معاملے پر یک سو ایک جیسی رائے رکھتے ہیں لیکن خیبرپختونخوا کے حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے اراکین نے جس انداز میں یکساں نصاب تعلیم سے متعلق وفاقی حکومت کی کوششوں کو صوبائی معاملات میں مداخلت سے تعبیر کیا ہے‘ یہ قطعی مناسب اعتراض نہیں جبکہ کوئی ایک بھی رکن اسمبلی ایسا نہیں جو یکساں نصاب تعلیم کی اہمیت و افادیت کا قائل نہ ہو اور اِس موضوع کے حق میں دلائل نہ رکھتا ہو۔ ایسی صورت میں یکساں نصاب تعلیم کو متنازعہ بنانے کی کوشش اور اِسے صوبائی خودمختاری کے تناظر میں دیکھنے کی بجائے پاکستان کی قومی ضرورت کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ فیصلہ سازوں کو سوچنا چاہئے کہ اگر آئین جامع نہیں‘ جس کی وجہ سے اِس میں بار بار ترامیم کی ضرورت پیش آئی ہے تو آئین ہی کی طرح اِس میں کی جانے والی ترامیم (بالخصوص اٹھارہویں آئینی ترامیم) کو کس بنیاد پر جامع تصور کر لیا جائے کہ اِس میں غلطی کی گنجائش نہیں رہی۔ حقیقت ِحال یہ ہے کہ انسانوں کا بنایا ہوا کوئی بھی قانون اور اُس قانون میں کوئی بھی ترمیم مکمل نہیں ہو سکتی اور اِس تناظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے اٹھارہویں آئینی ترمیم میں تعلیم کے شعبے کو صوبوں کے حوالے کرنے کا اقدام بھی ہے‘ جو یکساں نصاب تعلیم کے مرتب کرنے کے مراحل میں اگر رکاوٹ بن رہا ہے تو اِس کے لاگو کرنے کے وقت کتنی مشکلات پیدا کرے گا‘ یہ تصور کرنا محال نہیں۔ حقیقت حال یہ ہے کہ وفاقی حکومت صوبائی اختیارات میں مداخلت نہیں کر رہی بلکہ صوبوں کو یکساں نصاب تعلیم مرتب کرنے میں تکنیکی اور فنی مدد فراہم کر رہی ہے۔ کسی بھی نصاب تعلیم کے 3 بنیادی جز ہوتے ہیں۔ 1: مقاصد (objectives)۔ 2: مندرجات (contents) اور 3: درس و تدریس (سیکھنے سکھانے کے عمل) سے متعلق تجربات کی روشنی میں مرتب حکمت عملی (learning experiences)۔ اِس اصطلاحی تشریح کو سامنے رکھتے ہوئے اگر پہلی بنیادی ضرورت یعنی یکساں نصاب تعلیم پر تمام صوبوں کا اتفاق ہے اور تیسری ضرورت یعنی درسی و تدریسی عمل کو بھی تجربات کی روشنی میں مرتب کرنے پر کسی صوبے کو اعتراض نہیں تو پھر نصاب تعلیم میں شامل مضامین (اسباق و الفاظ کے انتخاب) سے متعلق اختلافات‘ تحفظات اور مخالفت بھی نہیں ہونی چاہئے۔ فیصلہ سازوں کو عوام کے نکتہئ نظر سے بھی اِس پوری صورتحال کا جائزہ لینا چاہئے کہ کس طرح نجی تعلیمی ادارے معیاری تعلیم اور بہتر (انواع و اقسام) کے نصاب ِتعلیم کے نام پر صارفین (والدین) کا استحصال کر رہے ہیں۔ وہ نصاب تعلیم جس سے قومی سطح پر اتفاق رائے پیدا ہونی چاہئے تھی لیکن وہ اختلاف رائے کا باعث بن رہا ہے۔ نجی تعلیمی اداروں میں سہولیات زیادہ اور بہتر اگر ہوں تو اِس سے فرق نہیں پڑتا لیکن نصاب تعلیم کراچی سے پشاور تک یکساں (یعنی ایک) ہونا چاہئے۔ یہی سماجی و سیاسی انصاف پر مبنی ایک بہتر طرزحکمرانی کی جانب پہلا قدم تصور ہوگا۔