خیبرپختونخوا میں زرعی زمینوں پر غیر قانونی تعمیراتی سرگرمیوں کی روک تھام کیلئے قانون کا مسودہ تیار کرلیا گیا وزیراعلیٰ محمود خان نے لینڈ یوز اینڈ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ایکٹ2021 کے مسودے کو منظوری کیلئے صوبائی کابینہ میں پیش کرنے کی ہدایت کی تاکہ کسی تاخیر کے بغیر قانون کا یہ مسودہ صوبائی اسمبلی سے منظور کرکے اس پر عمل درآمد شروع کیا جا سکے۔خیبرپختونخوا زرعی زمینوں کے تحفظ کا قانون تیار کرنے والا پہلا صوبہ بن گیا۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ مجوزہ ایکٹ کے تحت لینڈ یوز اینڈ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے قیام کے علاوہ صوبائی سطح پر ایک کونسل کے قیام کی بھی تجویز دی گئی ہے جس کے سربراہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا ہوں گے۔ کونسل میں متعلقہ صوبائی وزراء اور سیکرٹریز کے علاوہ نجی شعبے سے ماہرین بھی شامل ہوں گے۔ کسی بھی ضلع کیلئے لینڈ یوز پلان کی منظوری اور بوقت ضرورت اس میں ردو بدل کی منظوری صوبائی کونسل کااختیار ہو گا۔ یہ کونسل صوبے میں لینڈ یوز پلان اور ماسٹرپلان کی منظوری کے علاوہ اس مقصد کیلئے پالیسی فریم ورک اور لائحہ عمل بھی تیار کرے گا۔مجوزہ قانون کے تحت ہر ضلع کی سطح پر ڈسٹرکٹ کمیٹی قائم کرنے کی تجویز ہے جس کے سربراہ ڈپٹی کمشنر ہوں گے ڈسٹرکٹ کمیٹی ضلع کی سطح پر لینڈ یوز پلان تیار کرکے منظوری کیلئے صوبائی کونسل کو پیش کرے گی اور ضلع کی سطح پر منظور شدہ لینڈ یوز پلان پر عمل درآمد کو یقینی بنائے گی۔ لینڈ یوز پلان سے متعلق کسی بھی شہری کی جائز شکایات سننے اور اْن کے ازالے کیلئے ٹربیونل کے قیام کی بھی تجویز دی گئی ہے۔ وزیر اعلیٰ نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ صوبائی حکومت اگلے دو سالوں میں تمام اضلاع میں دو، دو فیملی پارکس تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اْنہوں نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ وہ اس مقصد کیلئے اضلاع میں موزوں مقامات کی نشاندہی کریں اور جس ضلع میں سرکاری اراضی دستیاب نہ ہو وہاں پر زمین خریدنے کیلئے اقدامات کئے جائیں زرعی فصلوں،پھلوں اور سبزیوں کیلئے زمین کم پڑنے کی وجہ سے زرعی پیداوار میں نمایاں کمی آرہی ہے۔ پشاور کی منڈیوں میں آڑو، آلوچے، سیب اور دیگر پھلوں کے علاوہ سبزیاں غائب ہورہی ہے۔ زرعی زمینوں پر تعمیرات کی وجہ سے ماحولیات پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں گرمی کی شدت بڑھ رہی ہے بارشیں کم ہونے لگی ہیں جس کی وجہ سے مجموعی قومی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ خیبر پختونخوا کا زیادہ تر رقبہ پہاڑوں، سنگلاخ چٹانوں اوربے آب و گیاہ ٹیلوں پر مشتمل ہے۔ صوبے کی ایک تہائی ہموار زمین پانی نہ ہونے کی وجہ سے بنجر پڑی ہے۔ زمین کا کچھ حصہ ہر سال دریاؤں کے کٹاؤ، سیم و تھور اور سیلابوں کی وجہ سے ضائع ہوتا ہے۔ اگر دستیاب زرعی زمینوں پر رہائشی مکانات، پلازے،مارکیٹیں اور سڑکیں تعمیر کی گئیں تو زراعت کیلئے کچھ نہیں بچے گااور نتیجے کے طور پر ڈیری کا شعبہ بھی تباہ ہوجائے گا۔ زراعت سے وابستہ ہزاروں خاندانوں کا زریعہ روزگار بھی ختم ہوگا۔ سب سے زیادہ ماحولیات کو نقصان پہنچے گا‘ ہاؤسنگ سوسائٹیوں اور رہائشی منصوبوں کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ آبادی میں اضافے کے ساتھ رہائش کے مسائل بڑھ گئے ہیں جس کے حل میں نجی رہائشی منصوبے اہم کردار ادا کر رہے ہیں تاہم یہ ضروری ہے کہ زرعی زمین کی حفاظت کی جائے اور ساتھ ساتھ رہائشی منصوبے کا سلسلہ بھی آبادی کے تناسب سے جاری رہے کیونکہ اس شعبے کے فروغ سے کئی انڈسٹریاں وابستہ ہیں جن کی ترقی میں تعمیرات کا شعبہ اہم کردار ادا کر رہا ہے ضرورت منصوبہ بندی اور توازن کی ہے۔