وفاقی حکومت کی جانب سے ذہنی معذور افراد کیلئے بینکاری کی سہولیات بذریعہ منیجر (بینک اہلکار) متعارف کرائی گئی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ساتویں مردم و خانہ شماری 2017ء کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 20 کروڑ 70لاکھ ہے جس میں آبادی کی پیمائش کے عالمی پیمانے کے مطابق پندرہ فیصد افراد کسی نہ کسی قسم کی معذوری کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ پیمانہ ’ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے متعارف کرایا تھا‘ جو کسی ملک کی آبادی میں معذور افراد کا کم سے کم شمار ہے اور اگر اِس تناسب سے پاکستان میں معذور افراد کا شمار کیا جائے تو یہ 3 کروڑ سے زیادہ ہیں۔ اِن معذور افراد کی اِس کل تعداد کو اگر 100فیصد تصور کیا جائے تو اِن میں 43.4 فیصد بچے (نابالغ) ہیں جن میں 58.4 فیصد لڑکے اور 41.6فیصد لڑکیاں ہیں۔ ایک عالمی تحریک کے بعد سے انہیں ’افراد باہم معذور‘ بھی کہا جاتا ہے اور اِن افراد کو صرف اپنے اہل خانہ یا اہل خاندان ہی سے نہیں بلکہ سماج اور حکومتی فیصلہ سازوں کی جانب سے بھی تعصب کا سامنا رہتا ہے اور اِن کے حقوق خاطرخواہ ادا نہیں ہوتے۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ معذور افراد کی موجودگی اور اُن کی مشکلات کو ہر دور میں تسلیم کیا جاتا ہے اور ہر دور حکومت میں اِن کے حقوق کی ادائیگی کا وعدہ بھی کیا جاتا ہے جیسا کہ خصوصی افراد کیلئے سرکاری ملازمتوں میں مقررہ 2 فیصد کوٹہ بڑھا کر 3 فیصد کر دیا گیا ہے اور حکومت خصوصی افراد کیلئے خصوصی ملازمتیں تشکیل دینے جیسے اعلانات (دعوے) بھی کئے جاتے ہیں لیکن برسرزمین صورتحال یکسر مختلف ہے کہ اِن افراد کیلئے مختص ملازمتیں یا تو فراہم نہیں کی جاتیں یا پھر اِن پر دیگر افراد کو بھرتی کر لیا جاتا ہے۔ جسمانی معذور افراد ذہنی طور پر زیادہ ذہین اور کام کاج میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ اگر انہیں کوئی ہنر سکھایا جائے تو اِس قدر انہماک سے اُس کام کو کرنے لگتے ہیں کہ اِن کی مہارت ضرب المثل بن جاتی ہے۔ پشاور میں کئی گونگے بہرے درزی آج بھی اپنے کام میں مہارت کی وجہ سے مشہور ہیں۔ تجویز ہے کہ جسمانی طور پر معذور افراد کو مختلف محکوں کی کمپیوٹرائزیشن کے عمل میں ترجیحاً شامل کیا جائے اِسی طرح ڈرائیونگ لائسنس کے اجرأ اور گاڑیوں کی رجسٹریشن کے محکموں میں کمپیوٹر آپریٹرز کی ابتدائی کام کر رہے ہوتے ہیں۔ ٹیلی فون اور لفٹ آپریٹرز کی نوکریاں بھی ویل چیئرز پر بیٹھ کر ممکن ہیں لیکن اِن کی حق تلفی کرتے ہوئے تندرست افراد بھرتی ہو جاتے ہیں۔ کئی ایسی قابل مذمت و افسوس ’عملی مثالیں‘ موجود ہیں جن میں سیاسی فیصلہ سازوں نے اپنے انتخابی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے منظورنظر صحت مند افراد کو معذوری کی طبی اسناد (میڈیکل سرٹیفیکٹس) پر بھرتی کیا یعنی معذوروں کے کوٹے پر صحت مند افراد سرکاری ملازم رکھے گئے جو نہیں ہونا چاہئے تھا اور ایسی مثالوں کو دیکھنے اور بھرتیوں پر نظرثانی کرتے ہوئے ناانصافی کو انصاف میں بدلنے کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف یہ کام بھی حکومت ہی کی ذمہ داری ہے کہ وہ نجی شعبے میں ملازمتوں پر معذور افراد کیلئے مقررکردہ کوٹے پر سختی سے عمل درآمد کروائے تاکہ افراد باہم معذور کو بھی باعزت زندگی بسر کرنے کے یکساں مواقع مل سکیں۔ خوش آئند ہے کہ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ذہنی طور پر معذور افراد بینک اکاؤنٹ کھول سکتے ہیں لیکن کیا بینکوں میں ایسا ماحول اور سہولیات میسر ہیں جو معذور افراد کی وہاں آمدورفت میں معاون ہوں جیسا کہ معذور افراد کیلئے سیڑھیوں پر چڑھنا آسان نہیں ہوتا۔ اکثر بیساکھیوں‘ وہیل چیئرز اور کسی نہ کسی سہارے کا استعمال کر رہے ہوتے ہیں اور وہ دیگر بینک صارفین کی طرح دھکم پیل کے ذریعے اپنا کام نہیں کروا سکتے۔ فیصلہ سازوں کو اِس بارے بھی سوچنا چاہئے۔ بہرحال سٹیٹ بینک کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ انسداد منی لانڈرنگ‘ دہشت گردی کیلئے مالی معاونت (فنڈنگ) روکنے اور پرلیفریشن فنانسنگ ریگیولیشنز میں ’ذہنی طور پر معذور افراد کے اکاؤنٹ‘ کی نئی کیٹگری بنائی گئی ہے اور سٹیٹ بینک نے تمام بینکوں کو ہدایت کی ہے کہ ذہنی طور پر معذور افراد کو ذہنی امراض سے متعلق قوانین کے مطابق عدالت کے تعینات منیجر کی مدد سے بینک اکاؤنٹ کھولنے اور اس کو چلانے کی اجازت دیتے ہوئے بینکاری کی سہولیات فراہم کریں۔ اِس سلسلے میں سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کے بعد اکاؤنٹ کھولنے کا ایک نظام ترتیب دیا گیا ہے‘ اس عمل میں مصدقہ شناختی دستاویزات کی فراہمی‘ متعلقہ فرد کی بائیو میٹرک تصدیق اور عدالت کے مقررہ منیجر کے ذریعے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) شامل ہے۔ بینک عدالت کی جانب سے مقرر کئے گئے منیجر کی بھی تصدیق کرے گی اور یوں دونوں افراد کو دستاویزی و دیگر قواعد (اے ایم ایل‘ سی ایف ٹی‘ سی پی ایف وغیرہ) کی ریگیولیشنز پر پورا اترنے کیلئے تمام سی ڈی ڈی (کسٹمرز ڈیو ڈیلیجنس) کی شرائط پوری کرنی ہوں گی۔ معذور افراد کیلئے مؤثر مالی سہولت کیلئے اِس نئی حکمت عملی کو جلد متعارف کروایا جائے گا جس میں ’ذہنی طور پر معذور افراد کے بینک اکاؤنٹس‘ کے ساتھ ’معاشرے میں کم سہولیات کے حامل افراد کو وسیع مالی سہولت میں شمولیت کیلئے راستہ ہموار کرے گی۔‘ سٹیٹ بینک اِس سے قبل بھی معذور افراد کیلئے اقدامات کر چکا ہے جن میں روزگار اور بینکوں کی شاخوں میں وہیل چیئر اور ریمپس کی سہولت بہتر بنانے سے متعلق اقدامات شامل ہیں لیکن اِن سہولیات کا معیار کسی بھی صورت تسلی بخش نہیں۔ نئے حکمنامے سے تمام بینک پابند ہو گئے ہیں کہ وہ معذور افراد کیلئے مناسب مالی سہولیات اور کریڈٹ گارنٹی کی سکیمیں بھی فراہم کریں اور ان تمام اقدامات کو ملک میں مالی معاملات کو بہتر بنانے کیلئے متعارف کروایا جارہا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ مرکزی بینک کی جانب سے یہ سہولیات صدر مملکت عارف علوی کی خصوصی دلچسپی کا نتیجہ ہیں جس کے بارے میں اُنہوں نے گزشتہ برس مرکزی بینک سے کہا تھا کہ وہ معذور افراد کیلئے بینکاری کی سہولیات فراہم کرے۔