واقعی ہم نے اپنا پانی دوسروں کیلئے کھلا چھوڑاہواہے اسی لیے توہمارے حصہ کے پانی پر بھارت ڈیم بنارہاہے اور ہم اس کاراستہ روکنے میں ناکام چلے آرہے ہیں اس حوالہ سے راقم الحروف کو اپنے انٹرویومیں واپڈا کے سابق چیئرمین انجینئز شمس الملک نے کہاتھاکہ سندھ طاس معاہدے میں کوئی غلطی نہیں ہوئی تھی اس وقت معاہدے پر دستخط کرناہماری مجبوری تھی ان کے بقول ہم سے غلطی یہ ہوئی کہ ہم نے اپنے حصہ کے پانی کی ملکیت کا انتقال تو اپنے نام کروادیا مگر اس کا قبضہ حاصل کرنے کی کوشش نہ کی اور انتقال سے کہیں زیادہ ضروری چیز قبضہ ہوتا ہے ان کایہ بھی کہناتھاکہ اپنے حصے کے پانی کا قبضہ لینے کا بہترین طریقہ یہی تھا کہ ہم زیادہ سے زیادہ تعداد میں ڈیمز بناتے مگر ہم نے ایسا نہ کیا جسکی وجہ سے بھارت کا حوصلہ بڑھا‘ اگر چہ سندھ طاس معاہدہ میں کہیں بھی اس امر کا ذکر نہیں کہ اگر پاکستان ڈیم نہ بنا سکا تو بھارت اسکے حصے کا پانی استعمال کرنے کا مستحق بن جائے گا لیکن اس نے ڈپلومیسی سے معاملہ اپنے حق میں لے جانے کی کوشش کی کیونکہ جب آپ یہ معاملہ ثالث کے پاس لے کر جائینگے تو وہ یہی کہے گا کہ جب آپ اپنے حصہ کا پانی استعمال کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور ہر سال بہت بڑی مقدار میں پانی سمندر میں گر کر ضائع ہو رہا ہے تو بھارت ڈیم بنا کر یہ پانی استعمال کرسکتا ہے اوریہی بہت خطرناک نکتہ ہے ایک آبی ماہر کی طرف سے سامنے آنے والا یہ نکتہ قابل غور ہے اس وقت اگر دیکھاجائے تو ملک میں مسلسل پانی کم ہورہا ہے بد قسمتی سے کسی حکومت نے اس حوالہ سے کوئی کام نہیں کیا پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کی آج تک کوشش نہیں کی گئی جس کے نتیجہ میں لاکھوں کروڑوں گیلن پانی سمندر میں گر کر ضائع ہوجاتا ہے۔ صوبہ بلوچستان میں اور ملک کے دیگر علاقوں لاکھوں ایکڑ زمینیں بنجر اور بغیر پانی کے ہیں اگر ان میں ہنگامی بنیادوں پر ڈیمز تعمیر کئے جائیں اور ان بنجر زمینوں کو سیراب کرکے کاشت کے قابل بنایا جائے توپاکستان ہمیشہ کیلئے غذائی اجناس کی قلت سے بچ جائے گا۔ نیز اس سے پاکستان کی غذائی ضروریات بھی پوری ہوسکیں گی اور ان فصلوں کو بیچ کر کثیر زرمباد لہ بھی کمایا جاسکتا ہے موجودہ حکومت پانی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے کوشاں تو ہے اور اس مقصد کے حصول کی خاطر بھاشاڈیم سمیت دیگر ڈیموں پر کام جاری ہے لیکن یہ سارے منصوبے طویل المدت ہیں جبکہ ہمیں فی الوقت چھوٹے ڈیموں کی اشد ضرورت ہے کالا باغ ڈیم آج بھی متنازعہ ہے اگر حکومت اپوزیشن سے مل کر اس ڈیم کی تعمیر کو ممکن بنائے اور ان پر خدشات وتحفظات کو دور کرے تو اس سے کافی استفادہ کیا جاسکتا ہے ہمارے مقابلے میں بھارت اپنے ملک میں تواتر سے ڈیمز تعمیر کررہا ہے یہاں تک کے اس نے پاکستان کی طرف بہنے والے پانیوں پر قبضہ کرکے متعدد متنازعہ ڈیم بناچکا ہے بھارت پاکستان کو بنجر کرنے کے منصوبہ پر کاربند ہے اور اس میں اسے کافی حد تک کامیابی مل چکی ہے پاکستان میں فوجی حکومتوں نے ہی بڑے ڈیمز بنائے ہیں جبکہ جمہوری حکومتوں نے اس حوالہ سے کچھ خاص نہیں کیا۔ موجودہ حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر کم لاگت اور کم وقت میں چھوٹے ڈیمز تعمیر کرنے چاہیئں ان ڈیموں میں بارشوں کا پانی ذخیرہ کیا جاسکے گا پھر یہ ذخیرہ شدہ پانی زمینوں اور دیگر ضروریات کیلئے استعمال کیا جاسکے گا۔ اور پاکستان غذائی اجناس میں کافی حد تک خود کفیل بن جائیگا۔ہمارا یہ ایک قومی المیہ ہے کہ ہمارے ہاں فنی مسائل کو سیاسی رنگ دیا جاتا ہے اس کی بڑی مثال کالا باغ متنازعہ ڈیم ہے افسوس اس بات کا ہے کہ فوجی حکومتوں میں بڑے بڑے ڈیمز بنائے گئے ہیں جبکہ جمہوری ادوار میں ڈیموں کی تعمیر سے اغماز برتا گیا اس نا اہلی یا کوتاہی کا خمیازہ آج پورا ملک اور قوم بھگت رہے ہیں۔اس معاملہ میں تو ہماری کارکردگی شرمناک حد تک ناقص رہی ہے گزشتہ50سالوں کے دوران چین نے 22ہزار ڈیم بنائے امریکہ نے 100 سالوں میں 6575ڈیم بنائے بھارت نے 50 سالوں میں 4291 ڈیم بنائے اس عرصہ کے دوران ہمارے ہاں صرف68ڈیم بنے‘ ان میں سے صرف2ڈیم ہی بڑے ڈیم کہلانے کے قابل ہیں تربیلا ہم نے کینیڈا کی مدد سے جبکہ منگلا ورلڈ بینک کی امداد سے بنا۔ جن جن ملکوں نے زیادہ سے زیادہ ڈیم بنائے انہوں نے تیزی سے ترقی کی۔ ماہرین باربار خبردار کرتے رہتے ہیں کہ ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ موسم سرما میں پانی کی کمی ہوتی ہے دریائے سندھ اپنے معاون دریاؤں کے ساتھ مل کر سالانہ اوسطاً 13کروڑ 78لاکھ ایکڑ فٹ پانی لاتا ہے اس میں سے 83فیصد یعنی11کروڑ 47لاکھ ایکڑ فٹ صرف موسم گرما میں آتا ہے باقی17فیصد یعنی2کروڑ 31 لاکھ ایکڑ فٹ پانی موسم سرما میں آتا ہے یوں زراعت کیلئے موسم سرما میں ایک کروڑ51لاکھ ایکڑ فٹ پانی کی کمی ہوتی ہے جبکہ گرمیوں میں 3کروڑ 50 لاکھ ایکڑ فٹ پانی اضافی ہوتا جو سمندر میں جاگرتا ہے آج بھی ہماری فی ایکڑ پیداوار دنیا میں کم شمار کی جاتی ہے چنانچہ ڈیم بنا کر ہم موسم سرما میں فصلوں کی ضروریات کے مطابق پانی مہیا کر سکتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ گرمیوں میں سیلاب کے خطرات پر بھی قابو پا سکتے ہیں آپ دیکھیں دنیا بھر میں گزشتہ صدی کے دوران42ہزار بڑے ڈیم بنے‘ جن ممالک نے ڈیم بنائے وہ ترقی کرگئے باقی ہماری طرح پیچھے رہ گئے اصل مسئلہ قومی سطح کی پالیسیوں کاہوتاہے اس سلسلہ میں صرف اورصرف قومی مفاد کو مقدم رکھاجاناچاہئے ہر چیز کو سیاسی مفاد کی عینک سے دیکھنے کی روش اب ترک کرناہوگی۔