مہنگائی: باغ تو سارا جانے ہے

مال مویشیوں کی افغانستان غیرقانونی نقل و حرکت (سمگلنگ) یوں تو سارا سال ہی جاری رہتی ہے لیکن عید الاضحیٰ کے موقع پر اِس سرگرمی میں اضافے کی وجہ سے مقامی طور پر جانوروں اور گوشت کی قیمتوں میں اضافہ ایک فطری ردعمل ہے‘ جومارکیٹ کا سیدھا سادا اصول بھی ہے کہ جب کسی بھی جنس کی مانگ میں اضافہ اور مقدار میں کمی ہوتی ہے تو اِس کا فوری اثر قیمتوں میں اضافے کی صورت ظاہر ہوتا ہے۔ لگتا یہ ہے کہ رواں برس سال (1442ہجری) عیدالاضحیٰ کے موقع پر قربانی کے لئے جانوروں کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہوں گی کیوں کہ عید سے چالیس روز قبل ہی مال مویشیوں کی کمی ہو چکی ہے جب کہ افغانستان جانوروں کی سمگلنگ کا سلسلہ بھی ابھی سے زور و شور سے جاری ہے۔قربانی کے لئے جانوروں کی مقامی طور پر دستیابی اور ارزانی ممکن بنانے کے لئے پشاور ہائی کورٹ نے 2 احکامات جاری کئے ہیں۔ 1: ضلعی انتظامیہ (تمام متعلقہ اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز) افغانستان جانوروں کی سمگلنگ نہ ہونے دیں اور 2: جاری سمگلنگ کو روکنے کے لئے خاطرخواہ اقدامات کئے جائیں۔ عدالت ِعالیہ کے 2 رکنی بینچ جس کی سربراہی چیف جسٹس قیصر رشید خان اور جسٹس اعجاز قیصر کر رہے ہیں کی جانب سے اِس بات پر گہری تشویش کا اظہار سامنے آیا ہے کہ ”عیدالاضحیٰ کی آمد قریب آتے ہی مال مویشیوں کی افغانستان سمگلنگ اور قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے جب کہ عیدالاضحیٰ کے لئے درکار مال مویشی حسب ضرورت بمشکل دستیاب ہوں گے۔“ اِس صورت حال میں اگر قربانی کے جانوروں کی افغانستان سمگلنگ جاری رہتی ہے تو عیدالاضحیٰ پر جانوروں کی کمی سے بحران پیدا ہو گا اور وہ عمومی مہنگائی جس کی فریاد عوام کی اکثریت کر رہی ہے اُس بارے میں خواص کی رائے بھی تبدیل ہو جائے گی۔ ذہن نشین رہے کہ قربانی کے جانوروں کی افغانستان سمگلنگ روکنے کے لئے عدالت عالیہ کا حکم ”دس جون‘‘کو جاری ہوا جب کہ گزشتہ ماہ عدالت ِعالیہ نے مرغیوں کی افغانستان سمگلنگ پر بھی پابندی عائد کرنے کا حکم دیا تھا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ اگر عدالت ِعالیہ حکم نہ دے اور صورت حال کے بارے میں تشویش کا اظہار نہ کرے تو کیا افغانستان تک پہنچنے والی مرغی اور مال مویشی جو کہ مختلف اضلاع بشمول پشاور سے گزر کے جاتے ہیں‘ اِنہیں روکنا متعلقہ حکومتی محکموں کی ذمہ داری نہیں؟ افغانستان اشیائے خوردونوش کی سمگلنگ میں کوئی ایک یا دو ضلعی انتظامیہ کے اعلیٰ و ادنیٰ اہلکار ہی ملوث نہیں بلکہ اِس میں سرحدی اہلکاروں کا تجاہل عارفانہ بھی قابل مذمت ہے اور اگرچہ عدالتی حکم نامے میں وفاق کے زیرانتظام سرحدی نگرانی کرنے والوں کو مخاطب نہیں کیا گیا لیکن قصوروار کوئی ایک نہیں۔ یادش بخیر عدالت ِعالیہ نے مرغیوں کی افغانستان سمگلنگ کا نوٹس لیا تو اِس سے مرغیوں کی قیمت میں سو فی صد سے بھی زیادہ کمی دیکھنے میں آ چکی ہے لیکن عدالت کے حکم میں تمام متعلقہ ڈپٹی کمشنروں کو ہدایت جاری کی گئی تھی کہ مرغیوں کی افغانستان سمگلنگ کو اُس وقت تک روکیں اور کڑی نظر رکھیں جب تک اندرون ملک مرغیوں کی قیمت  معمول پر نہیں آ جاتی۔اس وقت مرغیوں کی خریداری عام آدمی کی دسترس میں نہیں‘ اگر ہمارے انتظامیہ کے افسر جانتے ہیں کہ افغانستان سمگلنگ سے بحران پیدا ہوتے ہیں تو اِس کی مستقل بنیادوں پر روک تھام کیوں نہیں کی جاتی۔ پاکستان کی افغانستان کے ساتھ سرحد (طورخم) پر کلوزسرکٹ کیمرے نصب ہیں‘ اگر اعلیٰ حکام اُن کی ریکارڈ شدہ ویڈیوز طلب کریں تو معلوم ہو گا کہ چوبیس گھنٹے تجارت کے لئے کھلی اِس سرحد پر اشیائے خوردونوش اور مال مویشیوں یا مرغیوں سے بھری گاڑیاں کس آسانی اور کس بڑی تعداد میں سرحد عبور کرتی ہیں‘ جو روزانہ کا معمول ہے۔ عدالت ِعالیہ کے نوٹس لینے کے وقت فی کلوگرام مرغی کی قیمت جو کہ345روپے سے تجاوز کر چکی تھی‘ کم ہو کر 186روپے فی کلو ہو چکی ہے لیکن رمضان المبارک (1442ہجری) کے دوران مرغیوں کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر رہیں جس کی وجہ سے ایک عام آدمی کے لئے مرغی کا گوشت خریدنا مالی طور پر ممکن نہیں تھا۔ اب جب کہ قیمتیں کم ہوئی ہیں تو عیدالاضحیٰ سے قبل ویسے ہی مرغیوں کی مانگ میں کمی آ جاتی ہے جبکہ اِن کی قیمتیں خاص بیماری کے سبب بھی کم رہتی ہیں۔ مال مویشیوں کی گرانی بہت بڑا مسئلہ ہے جس کی ایک جھلک گزشتہ برس (1441 ہجری) بھی دیکھنے میں آئی تھی لیکن اِس مرتبہ مال مویشیوں کی کمی قیمتوں میں اضافے کی صورت زیادہ شدت سے ظاہر ہوگی۔ مال مویشیوں کی ارزانی صرف عیدالاضحیٰ ہی کے لئے ضروری نہیں بلکہ گوشت کی قیمت معمول پر لانے کے لئے بھی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اِس سلسلے میں فوڈسیکرٹری کی جانب سے عدالت ِعالیہ کو دی گئی تجویز لائق توجہ ہے کہ جس میں کہا گیا ہے کہ پشاور میں ارزاں قیمتوں پر گوشت کی فروخت کے 18 مراکز قائم کئے جائیں جو وقتی حل ہے‘ماضی میں جتنے سستے بازار اور کم قیمت اشیا ء کی فروخت کے مراکز بنائے گئے وہ سبھی کوششیں خاطرخواہ کامیاب نہیں ہوئیں۔ ضرورت پورے ماحول پر نظر رکھنے کی ہے جس سے ذخیرہ اندوز اور ناجائز منافع خور فائدہ اُٹھا رہے ہیں اور یہ بات ہر ذی شعور جانتا ہے۔ ”پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے …… جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے‘ باغ تو سارا جانے ہے (میر تقی میرؔ)۔“