بجٹ: اقتصادی اصطلاحات۔۔۔۔۔۔۔۔

پارلیمانی جمہوریت کا حسن ہے کہ اِس میں وفاقی حکومت کی آمدنی اور اخراجات کا سالانہ میزانیہ (بجٹ) باقاعدگی سے ترتیب دیا جاتا ہے۔ آئندہ مالی سال (دوہزاراکیس بائیس) کی بجٹ دستاویز (گیارہ جون) قومی اسمبلی اجلاس میں پڑھ کر پیش کرنے سے متعلق کاروائی قومی نشریاتی رابطے پر ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر براہ راست نشر ہوئی لیکن بجٹ کیا ہوتا ہے اور معاشی اصلاحات کے مطالب و معانی کیا ہوتے ہیں اگر اِن کے بارے کسی عام آدمی سے پوچھا جائے تو اُس کی لاعلمی سے عیاں ہوتا ہے کہ بجٹ کی سمجھ بوجھ سیاسی جماعتوں اور بڑے کاروباری طبقات کو ہوتی ہے جن کے علاوہ تجزیہ کار بھی اِسے عام آدمی کیلئے آسان بنا کر پیش نہیں کرتے کہ وہ بجٹ بارے سمجھ بوجھ میں خاطرخواہ اِضافہ ہو۔ وفاقی بجٹ سے ایک روز قبل قومی سطح پر کئے گئے ایک جائزے سے معلوم ہوا کہ ہر 10 میں 9 پاکستانیوں کو بنیادی نوعیت کی اقتصادی اصطلاحات کے مطالب معلوم نہیں جیسا کہ ’جی ڈی پی (گراس ڈومیسٹک پراڈکٹ)‘ کس چیز کا مخفف ہے یا کرنٹ اکاؤنٹ (حکومت کے جاری اخراجات و آمدن) کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ اِنہی دو اصطلاحات (جی ڈی پی اور کرنٹ اکاؤنٹ) کو مدنظر رکھتے ہوئے نہ صرف بجٹ دستاویز اور منصوبہ بندی مرتب کی جاتی ہیں۔ غیرسرکاری عالمی تنظیم ’ipsos.com‘ کی پاکستان شاخ نے وفاقی بجٹ سے قبل پاکستان کے مختلف بڑے شہروں اور دیہی علاقوں میں سوال و جواب کے ذریعے عام آدمی کی معلومات پر مبنی جائزے سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ عام آدمی کیلئے سب سے زیادہ تشویش کا باعث مہنگائی اور بیروزگاری ہیں‘ جن سے متعلق اُنہیں ’اچھی خبر‘ ملنے کا انتظار ہے۔
عوامی سروے میں 6 اقتصادی اصطلاحات (جی ڈی پی‘ کرنٹ اکاؤنٹ‘ فسکل ڈیفیسڈ‘ پر کیپیٹا انکم‘ سٹاک ایکس چینج اور فارن ایکس چینج ریزروز) کے بارے میں عام آدمی سے پوچھا گیا لیکن 98 فیصد پاکستانیوں کو اِن اصطلاحات کے بارے میں علم نہیں تھا جبکہ حکومتی اور غیرحکومتی اراکین اسمبلی اور ذرائع ابلاغ اِن چھ اصطلاحات کا بے دریغ استعمال اقتصادی امور کے تجزئیوں اور خبروں میں کرتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اپنی تقاریر میں جس اقتصادی اصطلاح کا سب سے زیادہ استعمال کرتے ہیں وہ ’کرنٹ اکاؤنٹ‘ ہے جس کے خسارے کی مثبت اعشاریئے میں تبدیلی کا ذکر کرتے ہوئے اکثر کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کے برسراقتدار آنے کے وقت (2018ء) میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 19 ارب ڈالر تھا جسے اُن کی حکومت نے تین سال میں منفی سے مثبت بنا دیا ہے لیکن معلوم ہوا ہے کہ عام پاکستانیوں کی اکثریت کو نہ تو کرنٹ اکاؤنٹ اور نہ ہی فسکل ڈیفیسڈ کے بارے میں علم ہے کہ اِن سے مراد کیا ہوتی ہے۔ پاکستان کی اقتصادی صورتحال میں بہتری کے جملہ اعشاریئے ماسوائے ’کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ‘ منفی میں ہیں اور درآمدات میں کمی کی وجہ سے حکومت کو جو زرمبادلہ کے ذخائر میں بچت ہوئی ہے اُس کا ایک محرک کورونا وبا کے سبب سست معاشی سرگرمیاں بھی ہیں۔
مذکورہ عالمی ادارے کی جانب سے اگست 2019ء میں بھی ایک سروے کیا گیا تھا جس سے معلوم ہوا تھا کہ پاکستانیوں کی اکثریت سمجھتی ہے کہ ملکی معیشت غلط سمت میں رواں ہے۔ حالیہ جائزے (8 جون) میں بھی اِس سوال کو شامل کیا گیا جس سے معلوم ہوا کہ ہر پانچ میں سے چار پاکستانیوں کی رائے یہی ہے کہ معاشی بہتری اُس قدر نہیں ہو رہی جس قدر اِس کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ فیصلہ سازوں کو رائے عامہ جائزے (زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھتے ہوئے) مہنگائی کا سدباب کرنا چاہئے جو پاکستانیوں کی اکثریت کیلئے تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے اور عام آدمی کی رائے میں بجٹ اعدادوشمار اور اصطلاحات جو بھی ہوں لیکن مہنگائی میں کسی صورت‘ بہرصورت کمی (ضرور) آنی چاہئے۔ تاریخ رہی ہے کہ دستاویزی بجٹ اور عملاً اقدامات میں زمین آسمان کا فرق رہتا ہے اور ماضی میں بجٹ کے موقع پر (یعنی سال میں ایک بار قیمتوں میں اضافہ یا کمی) ہوتی تھی اور پورا سال قیمتیں مستحکم رہتی تھیں لیکن اب چونکہ ہر جنس کی قیمت میں یومیہ ردوبدل ہوتا ہے اِس لئے بجٹ کی اہمیت ثانوی رہ گئی ہے اور یہ ایک ایسی رسم بن چکا ہے‘ جس میں اعلان کردہ ترجیحات پر عمل درآمد ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد وفاقی بجٹ سے زیادہ صوبائی بجٹ کی اہمیت بڑھ گئی ہے جیسا کہ وفاقی بجٹ میں اعلان کیا گیا ہے کہ آئندہ مالی سال (دوہزاراکیس بائیس) میں نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) کے تحت پنجاب کو 1691 ارب‘ سندھ کو 848 ارب‘ خیبرپختونخوا کو 559 ارب اور بلوچستان کو 317 ارب روپے دیئے جائیں گے۔
وفاقی ہو یا صوبائی‘ ہر بجٹ سے متعلق حزب ِاقتدار اور حزب ِاختلاف سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتوں کا مؤقف ایک دوسرے سے ہمیشہ متضاد (مختلف) ہوتا ہے اور ہر سال بجٹ کے موقع پر کوئی نہ کوئی سیاسی جماعت اِسے ’الفاظ کا گورگھ دھندا“ قرار دیتی ہے۔ بجٹ کے بارے میں اِس نوعیت کا غیرمحتاط تبصرہ عام آدمی (ہم عوام) کے دلوں اور ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے اور وہ بجٹ سے متعلق ایک ایسی رائے قائم کر لیتا ہے جو سوفیصد درست نہیں ہوتی۔ یہ مرحلہئ فکر اِس بارے میں بھی سوچنے کا ہے کہ جو سیاسی جماعتیں موجودہ وفاقی بجٹ کی مخالفت کر رہی ہیں اُن کے اپنے ادوار میں ایسا کونسا مختلف بجٹ پیش کیا گیا تھا جس نے پاکستان اور عوام کی قسمت بدل کر رکھ دی تھی؟ ذہن نشین رہے کہ بجٹ صرف آمدن و اخرجات کا میزانیہ ہی نہیں ہوتا بلکہ یہ حکومتی سوچ‘ منصوبہ بندی اور ترجیحات کا بھی عکاس ہوتا ہے جسے فوراً سمجھنا ممکن نہیں ہوتا بالخصوص ایک ایسی صورتحال کہ جس میں پاکستان عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے قرض لیتا ہے اُر ہر سال کی طرح اِس مرتبہ بھی خسارے کا بجٹ پیش کیا گیا جس میں مختلف شعبوں کو رعایت (سبسڈی) دی گئی ہے تاکہ عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ نہ پڑے اور مہنگائی کی شرح میں اضافہ نہ ہو لیکن قرضوں میں جھکڑی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کیلئے آزاد و خودمختار فیصلے آسان نہیں کیونکہ ’آئی ایم ایف‘ کی جانب سے دیئے جانے والے قرض ہمیشہ سے مشروط رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وفاقی بجٹ سے قبل جن شعبوں بشمول پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی و گیس پر عائد شرح ٹیکس کو برقرار رکھا گیا ہے اُس سے بجٹ خسارے پر قابو پانا آسان نہیں اور سیاست اِسی طرزعمل کا نام ہے کہ جس کے ذریعے ہر مشکل میں سے آسانی کی راہیں تلاش کی جاتی ہیں۔