بجٹ اور قبائلی عوام کی توقعات۔۔۔۔

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے اگلے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں قبائلی اضلاع میں جاری منصوبوں کی تکمیل پر خصوصی توجہ دینے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ضم اضلاع میں صحت، تعلیم، آبنوشی، مواصلات، صنعت، زراعت اور اہم خدمات کے دیگر شعبوں میں مسائل کے حل کیلئے متعدد سکیمیں آئندہ ترقیاتی پروگرام میں شامل کی جائیں گی۔ حکومت کی کوشش ہے کہ ضم اضلاع کے تمام شعبوں میں ترجیحی منصوبوں کو پہلی فرصت میں مکمل کیا جائے۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ ضم اضلاع میں تمام ترقیاتی منصوبے منتخب عوامی نمائندوں کی مشاورت سے شروع کئے جائیں گے۔ متعلقہ عوامی نمائندے اپنے حلقوں کی ضروریات کو مدنظر رکھ کرنا گزیر منصوبوں کی بروقت نشاندہی کریں تاکہ اس کے مطابق ضم اضلاع کے ترقیاتی پلان کو بلا تاخیر حتمی شکل دی جا سکے۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ ضم اضلاع کے طبی مراکز میں عملے کی کمی کوپورا کرنے، معیاری طبی سہولیات کی فراہمی اور تعلیمی اداروں کی بحالی پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ سیاحت کے فروغ کیلئے بھی منصوبے ترقیاتی پروگرام کا حصہ ہوں گے۔قبائلی علاقوں کو جب خیبر پختونخوا میں ضم کیا جارہا تھا۔ اس وقت وفاقی حکومت اور چاروں صوبائی حکومتوں نے معاشی لحاظ سے پسماندہ قبائلی علاقوں کو ترقی کے قومی دھارے میں شامل کرنے کیلئے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی۔ وفاقی حکومت نے قبائلی اضلاع کے دس سالہ ترقیاتی پروگرام کیلئے سو ارب روپے کے فنڈز کا بھی اعلان کیا تھا۔ تاہم خیبر پختونخوا کے سوادیگر صوبائی حکومتوں نے این ایف سی ایوارڈ میں سے اپنے حصے کا تین فیصد فاٹا کیلئے مختص کرنے سے معذوری کا اظہار کیا۔جس کی وجہ سے قبائلی اضلاع کی تیز تر ترقی کیلئے جو منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ان پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ قبائلی اضلاع کے ایک کروڑ عوام کو زندگی کی بنیادی سہولیات کی فراہمی اب وفاقی اور خیبر پختونخوا حکومت کی ذمہ داری بن گئی۔ وفاقی حکومت نے حالیہ بجٹ میں قبائلی علاقوں کی ترقی کیلئے 54ارب روپے کا فنڈ مختص کرنے کا اعلان کیا ہے تاہم اس فنڈ کا دو تہائی حصہ اگلے دو سالوں میں قبائلی اضلاع کو فراہم کیاجائے گا۔ صوبے میں ضم ہونے والے سات نئے اضلاع کے انتظام و انصرام، وہاں کے عوام کو بنیادی شہری سہولیات کی فراہمی اور ترقی کا عمل جاری رکھنا اب خیبر پختونخوا حکومت کے ذمے ہے۔ صوبائی حکومت ضم اضلاع میں ترقی کا پہیہ رواں دواں رکھنے کیلئے پرعزم ہے مگر جس رفتار سے ترقی کی وہاں کے عوام توقع رکھتے ہیں وسائل کی کمی کے باعث وہ رفتار حاصل کرنے میں کافی مشکلات حائل ہیں۔ تاہم قومی سیاسی دھارے میں شامل ہونے کا قبائلی اضلاع کے عوام کو بہت سے فوائد حاصل ہوئے ہیں۔ اب قومی اسمبلی اور خیبر پختونخوا اسمبلی میں ان کے منتخب نمائندے بیٹھے ہوئے ہیں اسی سال ضم اضلاع سمیت پورے صوبے میں بلدیاتی اداروں کے انتخابات بھی ہوں گے جس کی بدولت اختیارات کے ساتھ وسائل بھی نچلی سطح پر منتقل ہونے سے تحصیل اور یونین کونسل کی سطح پر عوام کے مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی۔ صوبائی اور وفاقی حکومت کیلئے ایک بڑا چیلنج قبائلی عوام کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دینا ہے جس کیلئے وہاں مقامی سطح پر روزگار کے مواقع پیدا کرنے ہوں گے۔ جس کیلئے معدنیات اور سیاحت کے شعبے ایسے ہیں جنہیں ترجیحی بنیادوں پر ترقی دے کر لاکھوں افراد کیلئے روزگار کے مواقع پیدا کئے جاسکتے ہیں۔ روزگار کے ساتھ تعلیم اور صحت کے شعبوں پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ قبائلی عوام کو علاج معالجے اور تعلیم کیلئے شہروں کی طرف نقل مکانی نہ کرنی پڑے۔صوبے میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع کے عوام بجاطور پر یہ توقع رکھتے ہیں کہ خیبر پختونخوا کے بجٹ میں ان کیلئے بڑے ریلیف کا اعلان کیا جائے گا۔