پشاور کہانی: روح رواں ۔۔۔۔۔

پشاور کے اکثر شہری علاقوں میں موسم گرما کے دوران پانی کی فراہمی 2 وجوہات کی بنا پر متاثر ہوتی ہے اور بالعموم پانی کی قلت سے متعلق شکایات سننے میں آتی ہیں۔ 1: بجلی کے تعطل (لوڈشیڈنگ) کے باعث ٹیوب ویل حسب معمول فعال نہیں رہتے‘ جس کی وجہ سے پانی کی فراہمی کے معمولات میں کمی یا تبدیلی آتی ہے۔ 2: گرمی کے سبب پانی کی مانگ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ 3: پانی کھینچنے والی طاقتور برقی موٹریں استعمال کرنے والے اپنے حصے سے زیادہ پانی کھینچ لے جاتے ہیں جبکہ ایسی موٹروں کے استعمال پر پابندی عائد کئے بغیر پانی کی فراہمی کا نظام درست نہیں ہو سکتا۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ شہریوں کو زیرزمین پانی ذخیرہ کرنے کے ٹینک نصب کرنے کی جانب راغب کیا جائے جہاں سے بذریعہ موٹر پانی گھروں کی چھت پر لگی ٹینکیوں میں بھرا جا سکے۔ 4: اکثر علاقوں میں ٹیوب ویل ایک دوسرے سے قریب بنائے گئے ہیں جو زیرزمین پانی کے ایک ہی ذخیرے سے استفادہ کرتے ہیں اور یوں زیرزمین پانی کم ہونے کے سبب کچھ علاقوں میں ٹیوب ویلوں کے اوقات کم کرنے پڑتے ہیں یا اُنہیں اوقات میں ردوبدل کے ذریعے پورا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس سے پیدا ہونے والی صورتحال اِس لئے ہنگامی اور بحرانی دکھائی دیتی ہے کیونکہ اندرون شہر کے اکثر گھروں میں کم سے کم ایک دن (چوبیس گھنٹوں) کی ضروریات کے مطابق پانی ذخیرہ رکھنے کا بھی بندوبست نہیں ہوتا اور دوسرا وہ چاہتے ہیں کہ پانی کی بلاتعطل فراہمی جاری رہے جس میں تکنیکی (فنی) خرابیوں کی گنجائش نہیں رکھی جاتی۔ معمول سے ہٹ کر اگر چند منٹ بھی ٹیوب ویل بند ہو یا کرنا پڑے تو صارفین فوراً گھبرا جاتے ہیں اُر صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے کی بجائے احتجاج پر اُتر آتے ہیں پشاور کے ضلعی بلدیاتی بندوبست کے مطابق ’ٹاؤن ون‘ میں شامل یونین کونسل ’شیخ جنید آباد‘ کو عرف عام میں ’شیخ آباد‘ کہا جاتا ہے جو معروف بزرگ حضرت شیخ جنید پشاوری المعروف شیخ جنید بابا رحمۃ اللہ علیہ شیخ جنید ثانیؒ (تاریخ 28 شوال 1162ہجری) کے نام سے منسوب ہے۔ واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسز (ڈبلیو ایس ایس پی) کے تقسیم (چار زونز) میں ’شیخ آباد‘ زونB کا حصہ ہے۔ یونین کونسل لاہوری اور شاہین مسلم ٹاؤن کی دو یونین کونسلوں سے متصل اِس گنجان آباد علاقے کو دیگر یونین کونسلوں سے بھی پانی فراہم ہوتا ہے لیکن یہاں کے باسیوں کی جانب سے تقاضے (پانی کی بڑھتی ہوئی ضروریات اور طلب) کبھی بھی پوری نہیں ہوتی۔بارہ جون کو اہل علاقہ کی جانب سے احتجاجی جلوس نکالا گیا  دوسری طرف ٹاؤن ون‘ انتظامیہ کسی بھی ٹیوب ویل کی سیاسی مخالفت کرنے کے الزام کی تردید کرتی ہے بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ٹیوب ویل کھدائی کیلئے جگہ کا انتخاب ایسا ہونا چاہئے جہاں پہلے سے کوئی دوسرا ٹیوب موجود نہ ہو۔ تکنیکی طور پر اگر کسی ایک ٹیوب ویل کے مقام سے دوسرا ٹیوب ویل دکھائی دے تو ایسی صورت میں دونوں ٹیوب ویل اپنی پوری صلاحیت کے مطابق پانی فراہم نہیں کر سکتے۔ توجہ طلب ہے کہ ایک ٹیوب ویل کم سے کم 250 سے 300 خاندانوں (ڈھائی سے تین ہزار افراد) کی ضروریات کے لئے پانی فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن پشاور میں پانی کی فراہمی کے ادارے ’ڈبلیو ایس ایس پی‘  چار زونز میں 520 سے زیادہ ٹیوب ویلوں کے ذریعے پانی فراہم کر رہی ہے لیکن اِس کے باوجود بھی ہر سال نئے ٹیوب ویلوں کی ضرورت پڑتی ہے جبکہ اندرون شہر میں آبادی بڑھنے کا تناسب مضافاتی علاقوں کی نسبت نہ ہونے کے برابر ہے ٹاؤن ون کی حدود میں نئے ٹیوب ویل نصب کرنے کیلئے اصول یہ ہونا چاہئے کہ ٹیوب ویلوں کی کھدائی کے لئے پبلک پارکس (سبزہ زاروں‘ باغات یا فٹ پاتھ) کا استعمال نہ کیا جائے گا۔ باغات کے شہر پشاور کو باغات کی ضرورت ہے جو ماحولیاتی آلودگی کم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں پانی کا نہایت ہی احتیاط سے حسب ضرورت استعمال بارے عوامی شعور میں اضافہ ہونا چاہئے۔ اِسی طرح پینے کے صاف پانی کو ٹیوب ویلوں اور زیرزمین ذخیرے سے حاصل کر کے موٹرگاڑیوں کو دھونے کے مراکز (سروس اسٹیشنز) پر بھی پابندی عائد ہونی چاہئے کیونکہ ’پانی پشاور کی زندگی اور اِس کے قدیم ترین زندہ تاریخی شہر ہونے کا راز ہے۔‘ اگر پشاور دیگر تاریخی شہروں کے مقابلے آج بھی زندہ و موجود ہے اور اِس شہر کی نبض چل رہی ہے تو اِس کی بنیادی وجہ یہاں پینے کے پانی کی دستیابی رہی ہے لیکن اگر پانی کے استعمال میں ناشکری و اسراف کا مظاہرہ کیا گیا تو خدانخواستہ یہ نعمت چھن جائے گی اور تصور بھی دشوار ہے کہ پانی جو کہ پشاور کی روح رواں ہے‘ اگر دستیاب نہ رہا تو کیا ہوگا!؟