وزیراعلیٰ خود سانحہ ریشن کا نوٹس لیں 

 دریائے چترال کے کناروں میں کٹاؤ کے باعث ریشن کے مقام پر اپر چترال کا زمینی راستہ دریا برد ہوگیا اور پورا ضلع اپرچترال صوبے کے دیگر علاقوں سے کٹ گیا ہے۔ضلع بھر میں سڑک کی بندش کے باعث اشیائے خوردونوش اور ادویات کی قلت پڑنے کا اندیشہ ہے۔ دریا کے کٹاؤ سے ریشن میں دو درجن سے زیادہ رہائشی مکانات، باغات اور سینکڑوں ایکڑ زرخیز زمین بھی فصلوں سمیت دریابرد ہونے سے متاثرہ خاندان کھلے آسمان تلے کسمپرسی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہوچکے ہیں، مزید مکانات اور اراضی کو بھی خطرہ ہے۔ سڑک دریا برد ہونے سے سینکڑوں گاڑیاں اور ہزاروں مسافر پھنس گئے ہیں۔ وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی برائے اقلیتی امور وزیرزادہ نے متاثرین کے نام اپنے ویڈیو پیغام میں باغات، فصلوں، زمینوں اور مکانات کی تباہی پر متاثرین ریشن سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے صوبائی حکومت سے ریشن کو کٹاؤ سے بچانے کے لئے ڈھائی کروڑ روپے کے فنڈز کی منظوری لی تھی مگر ضلعی انتظامیہ کی سست روی کے باعث حفاظتی پشتوں کی تعمیر کا کام بروقت شروع نہیں ہوسکا۔ جس کی وجہ سے ضلع اپر چترال کی رابطہ سڑک سمیت مزید نو مکانات اور زرعی اراضی تباہ ہوگئی۔ انہوں نے امدادی کاموں میں سرکاری مشینری کی سست روی پر متاثرین سے معافی بھی مانگ لی اور ضلع اپرچترال کی رابطہ سڑک کی بحالی اور متاثرین کی آباد کاری کے لئے ہنگامی اقدامات کی بھی یقین دہانی کرائی۔ ہمارے سرکاری دفاتر میں سارا کام ”تھرو پراپر چینل“ ہوتا ہے۔ صوبے کے انتظامی سربراہ وزیراعلیٰ بھی کسی معاملے کا نوٹس لیں تو وہ چیف سیکرٹری کو ضروری کاروائی کے احکامات جاری کرتے ہیں۔ چیف سیکرٹری متعلقہ ڈویژن کے کمشنر تک وزیراعلیٰ کی ہدایات پہنچاتے ہیں، کمشنر متعلقہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو ہدایات جاری کرتے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر اپنے ماتحت ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کو نوٹس فارورڈ کرتے ہیں۔ ایڈیشنل ڈی سی اسسٹنٹ کمشنر کو اور وہ اپنے ماتحت تحصیلدار کو ضروری کاروائی کی ہدایت کرتے ہیں۔ تحصیل دار صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں اور احکامات پر عمل درآمد کی راہ میں حائل رکاوٹوں اور مشکلات کے بارے میں رپورٹ اے سی کو پیش کرتے ہیں۔ وہاں سے فائل مختلف دفاتر کے بعد واپس وزیراعلیٰ آفس پہنچنے میں آٹھ دس مہینے لگ جاتے ہیں۔ ہنگامی صورتحال میں فوری امداد کی فراہمی کے لئے فوج، غیر سرکاری اداروں، فلاحی تنظیموں اور رضاکاروں پر انحصار کیا جاتا ہے۔ ریشن کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ سیلاب سے تباہی اور دریا کے کٹاؤ سے ایک چوتھائی ریشن کے دریا برد ہونے کا واقعہ ایک ہی رات میں پیش نہیں آیا۔ 2010ء میں ہولناک سیلاب سے 4.2میگاواٹ کا ریشن پاور ہاؤس تباہ ہوگیا تھا۔ گیارہ سال گذرنے کے باوجود وہ بحال نہیں ہوسکا۔ 2014ء میں سیلاب نے پھر تباہی مچادی اور سینکڑوں خاندان بے گھر ہوگئے جو آج بھی چھت کی سہولت سے محروم ہیں۔ دریا کے کٹاؤ کی وجہ سے ریشن کا زیریں علاقہ اڑیان دس پندرہ سال پہلے تباہ ہوا تھا۔ شادیر کے علاقے میں دریائی کٹاؤ سے رہائشی مکانات، باغات اور زرعی اراضی کی تباہی کا سلسلہ گزشتہ چھ سات سالوں سے جاری ہے۔ سیلاب اور دریائی کٹاؤ سے اب تک 80گھرانے مکمل طور پر بے گھر ہوچکے ہیں ان میں سے کچھ لوگوں نے نقل مکانی کرلی، کچھ اب بھی رشتہ داروں کے ساتھ قیام پذیر ہیں مگر کسی کو ان بے گھر افراد کی بحالی اور آباد کاری کا خیال نہیں آیا۔ اب جب پورے ضلع کا زمینی راستہ کٹ گیا تب صاحبان اقتدار و اختیار کے کانوں میں جوں رینگنے لگی ہے‘ وزیر اعلیٰ کو ریشن سانحے کا خود نوٹس لینا چاہئے اور انہیں ضلع اپرچترال کے زمینی راستے کی ہنگامی بنیادوں پر بحالی کے ساتھ متاثرین ریشن کی متبادل مقام پر آبادکاری کے لئے اقدامات کرنے ہوں گے اور ریشن آپریشن کی خود وزیراعلیٰ ہاؤس سے مانیٹرنگ کرنی ہوگی۔ اگر تھرو پراپر چینل والی پالیسی اختیار کی گئی تو متاثرین کو ریلیف ملنے کا کوئی امکان نہیں۔ صوبائی حکومت کی طرف سے ریشن کو دریائی کٹاؤ سے بچانے کے لئے جاری فنڈ اب تک استعمال نہ ہونے کا بھی وزیراعلیٰ خود نوٹس لیں اور ذمہ دار سرکاری اہلکاروں کے خلاف کاروائی کے احکامات جاری کریں تاکہ قوم کی خدمت پر مامور اہلکاروں کو اپنے فرائض منصبی دیانت داری، ایمانداری اور تندہی سے فوری ادائیگی پر قائل کیا جاسکے۔