صوبائی دارالحکومت میں پینے کے پانی کی فراہمی‘ صفائی بشمول کوڑا کرکٹ اُٹھانے اور اِسے تلف کرنے کے لئے ”واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسز کمپنی (ڈبلیو ایس ایس پی)‘‘کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے تحت 92 میں سے 43 شہری و نیم شہری (دیہی) علاقوں پر مشتمل یونین کونسلوں میں خدمات کا دائرہ وسیع کیا گیا لیکن ”ڈبلیو ایس ایس پی‘‘کے قیام اور کام کاج سے وابستہ توقعات پوری نہیں ہو رہیں جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شہر کو صاف رکھنے کی جملہ کوششیں محدود وسائل اور عوام کے عدم تعاون کے سبب ناکام (ناکافی) ہیں۔ ”تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔“ متعلقہ اہل پشاور کو سمجھنا ہوگا کہ ڈبلیو ایس ایس پی کے پاس جادو کی چھڑی نہیں اور صفائی کی صورتحال اور کوڑا کرکٹ تلف کرنے کی کوششیں بھی صرف اُسی صورت کامیابی سے ہمکنار ہوں گی جب محکمہ اور اہل پشاور اپنے گھروں کی طرح شہر کو بھی صاف ستھرا رکھنے کی خواہش اور کوششوں کا عملاً حصہ بنیں۔پشاور کا نہری نظام ایک عرصے سے دباؤ کا شکار ہے۔ وہ نظام جو صاف و شفاف پانی کی روانی‘ آبنوشی اور آبپاشی کی ضمانت تھا‘ آلودہ ترین ہو چکا ہے کہ اِس میں گھریلو اور صنعتی فضلہ بھی بہایا جاتا ہے۔ ”ڈبلیو ایس ایس پی‘‘نے 20 ماہ سے متعلق اعدادوشمار جاری کئے ہیں جو پشاور کی آبی گزرگاہوں سے متعلق ہیں۔ حیرت انگیز بات ہے کہ مذکورہ عرصے (جون 2019ء سے اپریل 2021ء) کے دوران 52 ہزار ٹن کچرا آبی گزرگاہوں میں بہایا گیا۔ اعدادوشمار کے مطابق زون اے میں 11 ہزار327‘ زون بی میں 23 ہزار 814 اُور زون سی میں 6 ہزار ٹن کچرا اُٹھا کر تلف کیا گیا۔ ذہن نشین رہے کہ ایک ٹن ایک ہزار کلوگرام کے مساوی ہوتا ہے۔ ڈبلیو ایس ایس پی کے مطابق ’کابل ریور کینال کا 6 کلومیٹر اُور ورسک کینال کا 9.3 کلومیٹر علاقہ ”زون اے‘‘کا حصہ ہے جبکہ کابل ریور کینال کا 2.7 کلومیٹر اور ہزارخوانی کینال برانچ کا 5.1کلومیٹر علاقہ ”زون بی‘‘ کی حدود میں آتا ہے۔ اِسی طرح گریویٹی کینال کا 6 کلومیٹر اور گریویٹی کینال کا 11 کلومیٹر ”زون سی“ جبکہ ورسک گریویٹی کینال کا 5.4 کلومیٹر حصہ ”زون ڈی‘‘میں آتا ہے جہاں سے جون 2019ء سے اپریل 2021 ء تک مجموعی طور پر ”52 ہزار 15 ٹن“ کچرا برآمد کیا گیا۔ اِس کے علاوہ مختلف زونز سے بھی کوڑا کرکٹ اکٹھا کیا گیا جن میں زون اے سے 11ہزار 327‘ زون بی سے 23 ہزار 814‘ زون سی سے 6 ہزار 750 جبکہ زون ڈی سے 10 ہزار 124 ٹن کچرا اُٹھایا گیا۔کوڑا کرکٹ تلف کرنے کے لئے تاجر اور دکانداروں کا ’محبوب مشغلہ (عمومی طرز ِعمل)‘ یہی ہے کہ وہ ہر قسم کا کوڑا کرکٹ نزدیک ترین نالے نالیوں‘ کٹھے یا نہروں میں بہا دیتے ہیں۔ ڈبلیو ایس ایس پی کی حدود میں شاید ہی کوئی ایک بھی ایسا علاقہ ہوگا جہاں نکاسیئ آب کا نظام ٹھوس گندگی کے باعث معطل نہ رہا ہو۔ اِس سلسلے میں جس قدر بھی کوششیں اور جس قدر بھی افرادی و تکنیکی وسائل مختص کئے جاتے ہیں وہ سب کے سب اِس لئے ناکام ثابت ہوتے ہیں کیونکہ ’عوام تعاون نہیں کرتے‘ تاجر برادری اگرچہ پانی اور صفائی کے نظام سے استفادہ کرتی ہے لیکن وہ اِن دونوں خدمات کا معاوضہ ادا نہیں کرتی۔ اِس سلسلے میں ’ڈبلیو ایس ایس پی‘ نے حکمت عملی تیار کر رکھی ہے جس کی منظوری صوبائی حکومت سے ملنے کے بعد اُس تجارتی طبقے سے صفائی ٹیکس وصولی میں پیشرفت ہو گی‘ جس نے تجاہل عارفانہ اختیار کر رکھا ہے جو نہ تو ذمہ داری کا مظاہرہ کرتا ہے کہ کوڑا کرکٹ آبی گزرگاہوں یا نکاسیئ آب کے نالے نالیوں،کٹھوں میں نہ بہائے اور نہ ہی اِس بات کو ضروری سمجھتا ہے کہ صفائی کے لئے متعلقہ محکمے سے تعاون کرے۔ پشاور کے وسائل پر نقل مکانی کرنے والوں اور بڑھتی ہوئی آبادی کے بوجھ کو مدنظر رکھتے ہوئے پینے کے پانی کی فراہمی اور صفائی ستھرائی کا بندوبست وسعت چاہتا ہے۔ فی الوقت ڈبلیو ایس ایس پی کی خدمات 43 یونین کونسلوں تک محدود ہے جنہیں تمام (92) یونین کونسلوں تک پھیلانے کے لئے خاطرخواہ ہمدردی‘ توجہ اور پشاور بطور ترجیح کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔کورونا وبا کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں صفائی ستھرائی کی اہمیت و ضرورت کو محسوس کرنا مزید اہم ہو گیا ہے۔ اِس سلسلے میں شہریوں کو شہری ہونے کا عملی ثبوت اور غیرمشروط تعاون کرنا ہوگا۔ اِس مرحلہئ فکر پر صوبائی حکومت کو 2 بنیادی باتوں پر توجہ دینی چاہئے۔ سب سے پہلے تو ڈبلیو ایس ایس پی کے مرکزی انتظامی ڈھانچے پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے اور دوسرا پشاور کی تمام (92) یونین کونسلوں سے متعلق صفائی ستھرائی برقرار رکھنے کے لئے الگ الگ حکمت عملیاں وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ ناقابل یقین ہے کہ پشاور میں صفائی کا جو کام 100 روپے میں ہوتا تھا اب اُس پر ایک ہزار روپے سے زائد خرچ ہو رہا ہے کیونکہ ڈبلیو ایس ایس پی کے غیرترقیاتی اخراجات‘ تنخواہیں‘ مراعات اور نمائشی حکمت عملیوں پر جس فراغ دلی سے اخراجات کئے جاتے ہیں اُس سے خدمات کی فراہمی کے لئے دستیاب وسائل کم رہ جاتے ہیں۔ اگر کسی یونین کونسل میں خاکروب اُور دیگر عملے کی ضرورت ہے تو اِن کے انتظامی نگران تہہ در تہہ فوج ظفر موج کی صورت پشاور کے لئے مختص وسائل و اختیارات سے بھرپور فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ پانی کی فراہمی‘ نکاسیئ آب اور صفائی کا عمل اِس قدر بھی پیچیدہ و گھمبیر نہیں کہ اِن سے متعلق کی جانے والی کوششیں یوں رائیگاں محسوس ہوں۔کیا ڈبلیو ایس ایس پی کی حکمت عملیاں سائنسی بنیادوں پر جمع کردہ اعدادوشمار کی بنیاد پر مرتب کی جاتی ہیں؟ اِن جیسے بہت سے دیگر سوالات کا جواب اِس ایک مثال سے سمجھ میں آ سکتا ہے کہ جنوری2019ء میں ڈبلیو ایس ایس پی کی ویب سائٹ کا اجراء کیا گیا اور اِس سلسلے میں ویب سائٹ کی تقریب رونمائی کا انعقاد کیا گیا لیکن تاحال ویب سائٹ پر پشاور کے حوالے سے اعدادوشمار اور دستاویزات درست نہیں۔