خود کشی کے محرکات و مضمرات۔۔۔۔

چترال کے افسانوی شہرت کے حامل خوبصورت گاؤں سنوغر میں سترہ سالہ نوجوان نے سوتیلی ماں سے تکرار کے بعد دریا میں کود کر اپنی زندگی کا خاتمہ کردیا۔ اپنے ایک دوست کے ساتھ موبائل پر آخری مرتبہ رابطہ کرکے نوجوان نے بتایا کہ وہ گھریلو ماحول سے تنگ آکر اپنی زندگی کا چراغ گل کرنے کا فیصلہ کرچکا ہے۔ متوفی امیر حسین کے دوست کا کہنا ہے کہ ٹیلی فون پر بات کرتے کرتے اس نے دریا میں چھلانگ لگادی اور پھر ان کا رابطہ کٹ گیا۔ اسی روز تحصیل موڑکہو کے گنجان آباد قصبے کوشٹ میں سولہ سالہ لڑکی نے خود کو دریا کی موجوں کے سپرد کرکے اپنی زندگی کا چراغ گل کردیا۔ ابھی ان دو واقعات کی صدائے بازگشت ختم نہیں ہوئی تھی کہ دروش میں ایک نوجوان کی خود کشی کی خبر آگئی، خیبر پختونخوا کے خوبصورت اور پرامن علاقہ چترال میں گذشتہ چند سالوں کے دوران خود کشی کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ رواں سال اب تک 14 نوجوان لڑکے اور لڑکیاں دریا میں کود کو اپنی جانیں گنواچکے ہیں۔گذشتہ سال 35اور اس سے پچھلے سال 46افراد نے خود کشی کی تھی۔ پانچ چھ لاکھ کی آبادی کے اس ضلع میں سالانہ چالیس پچاس افراد کی خود کشی کے واقعات غیر معمولی اور تشویش ناک ہیں۔ دو سال قبل میری درخواست پر ملک کے نامور ماہر نفسیات و دماغی امراض پروفیسر ڈاکٹر خالد مفتی نے چترال میں میڈیکل کیمپ لگایا ایک روزہ کیمپ میں دماغی امراض کے دو سو مریضوں کا معائنہ کیا گیا۔ ان میں سے پانچ چھ نوجوانوں نے اعتراف کیا کہ وہ ڈپریشن کی وجہ سے بار ہا خود کشی پر مائل ہوچکے ہیں اور اپنی زندگی ختم کرنے کی کوشش بھی کرچکے ہیں اور آئندہ بھی موقع ملا تو وہ ضرور خود کشی کریں گے۔ میڈیکل کیمپ کے دوران ڈاکٹر خالد مفتی نے ٹاؤن ہال چترال میں دماغی امراض سے متعلق سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے خود کشی کے محرکات پر روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ گھریلو ماحول، غربت، بے روزگاری، منفی معاشرتی روئیے،غیر صحت مندانہ مقابلے کا رجحان اور ڈپریشن خود کشی کی بنیادی وجوہات ہیں۔ نوجوانوں کا خون گرم ہوتا ہے وہ بہت جلد جذباتی ہوتے ہیں اور مرنے یا مارنے پر تل جاتے ہیں۔ اس دوران والدین، بہن بھائی، بیوی بچے، رشتے دار اور دوست احباب ان کے جذبات کو سرد کرنے کی کوشش کریں اور انہیں دس پندرہ منٹ تک باتوں میں الجھائے رکھیں تو وہ خود کشی کا ارادہ بدل سکتے ہیں۔ امتحان میں ناکامی، کم نمبر آنا،والدین اور رشتہ داروں کے طعنے، پسند کی شادی نہ ہونا، عشق میں ناکامی اور گھروں میں مستقل لڑائی جھگڑے نوجوانوں کو ڈپریشن میں مبتلا کرتے ہیں اور اسی ڈپریشن کے زیر اثر وہ خود کشی جیسے انتہائی اقدام کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ کسی نوجوان کی خود کشی محض ایک زندگی کا خاتمہ نہیں بلکہ اس کے گہرے اثرات خاندان اور معاشرے پر بھی مرتب ہوتے ہیں اگر والدین کا اکلوتا بیٹا اپنی زندگی کا چراغ اپنے ہی ہاتھوں گل کردے تو والدین کے شب و روزبھی تاریک اور زندگی بے معنی ہوجاتی ہے۔ خود کشی کے اسباب اور محرکات واضح ہیں ان کاتدارک والدین، دوست احباب، اساتذہ،اہل قلم،مکتب، محراب و منبر اور حکومت کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اپر اور لوئر چترال کے ڈی ایچ کیو ہسپتالوں میں دماغی امراض کے ماہرین کی تعیناتی ناگزیر ہے تاکہ ذہنی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کو اپنی زندگی ختم کرنے کے فیصلے پر پہنچنے سے پہلے کسی ماہر نفسیات سے مشورے کا موقع مل سکے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ ذہنی بیماریوں کو مرض سمجھنے کیلئے تیار نہیں، شوگر، بلڈ پریشر، کینسر، تپ دق، امراض قلب اور گردوں کی بیماری کی طرح ذہنی بیماری بھی مہلک اور خطرناک ہے مگر ان کے بروقت اور مناسب علاج کو نہ عام لوگ ضروری گردانتے ہیں نہ ہی حکومت اسے اہمیت دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ ملک و قوم کے مستقل کے معمار تصور کئے جانے والے نوجوان ذہنی امراض میں مبتلا ہوکر اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگیوں کا چراغ گل کر رہے ہیں۔