شاعر شرف الدین ساحلؔ نے توجہ دلائی تھی کہ ”پرانے دور میں رہتا تھا اک کسان ایسا …… جو بات بات پہ سب سے سوال کرتا تھا۔“ آج کا کسان بے نمائندہ نہیں لیکن ’بے زبان‘ ضرور ہے اور یہی وہ توجہ طلب پستی ہے جہاں کسی سے گلہ شکوہ یا شکایت کرنے کی بجائے کاشتکاروں کو اپنی نمائندگی کا مسئلہ حل کرنا ہوگا۔ مقام تفکر ہے کہ اگر مختلف النظریات سیاسی جماعتیں اتحاد بنا کر تحریکیں شروع کر سکتی ہیں تو خیبرپختونخوا کے کاشتکار ’غیرسیاسی اتحاد‘ کیوں تشکیل نہیں دے سکتے اور اِنہیں ایسا کیوں نہیں کرنا چاہئے؟پیش نظر مرحلہئ فکر یہ بھی ہے کہ خیبرپختونخوا کے قانون ساز ایوان کے رکن جمشید خان نے کمال جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سوشل میڈیا بشمول ذرائع ابلاغ کی وساطت سے وفاقی اُر صوبائی حکومت کی توجہ اپنے حلقے کے زرعی محنت کشوں کی جانب مبذول کروائی ہے‘ جنہیں اُن کی فصلوں کی اصل قیمت نہیں مل رہی اور موسمیاتی اثرات کی وجہ سے زرعی نقصانات بھی الگ سے ہو رہے ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ خیبرپختونخوا کے دیگر کئی اضلاع کے کاشتکاروں کو بھی ایک جیسی مشکل صورتحال سے واسطہ ہے کہ ”مجموعی طور سے کاشتکاری (زراعت) منافع بخش نہیں رہی!“ اور اِس محرک کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف زرعی ضروریات کی قیمتیں (لاگت) فصل کی قدر (قیمت ِفروخت) سے زیادہ ہیں تو دوسری طرف موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کیلئے بیج دستیاب نہیں ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو چاہئے کہ غذائی تحفظ اور کاشتکاروں کی بڑھتی ہوئی غربت و بے بسی کو مدنظر رکھتے ہوئے خاطرخواہ منصوبہ بندی کریں اور اگر زراعت کو سہارے و زراعت کی بحالی کیلئے خاطرخواہ اور بروقت (فوری) اقدامات نہ کئے گئے تو اندیشہ ہے کہ زرخیز زرعی اراضی رہائشی بستیوں اور دیگر غیرزرعی منصوبوں یا مقاصد کیلئے استعمال ہونا شروع ہو جائے گی جو زیادہ بڑا نقصان ہوگا کیونکہ زراعت روزگار کا ایک پائیدار (مستقل) ذریعہ ہے اور اِس سے بلواسطہ اور بلاواسطہ 70 فیصد سے زائد ملازمتی مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ توجہ طلب اَمر یہ بھی ہے کہ کسی رکن اسمبلی کیلئے اپنے انتخابی حلقے کے مسائل اُجاگر کرنے کیلئے صوبائی اسمبلی کا پلیٹ فارم موجود ہوتا ہے لیکن دیگر مباحثوں کی وجہ سے صوبائی اسمبلی میں ایسی آوازیں بہت ہی کم سنائی دیتی ہیں جو کسی خاص طبقے کے حقوق سے متعلق ہوں‘ ضلع مردان کے مضافاتی اور بیشتر دیہی علاقوں پر مشتمل اِس انتخابی حلقے میں رہنے والے کاشتکار محنت کشوں کے مسائل دیرینہ ہیں اور اُن سے ناانصافی صرف موجودہ دور ہی میں نہیں ہو رہی بلکہ قبل ازیں جبکہ اِس حلقے سے دیگر جماعتوں کے نامزد نمائندے منتخب ہوتے رہے‘ تب سے آج تک چھوٹے کاشتکاروں (زرعی محنت کشوں) کے مسائل جوں کے توں برقرار ہیں۔رکن صوبائی اسمبلی جمشید خان نے مطالبہ کیا ہے کہ ’تخت بھائی تحصیل‘ کو ’آفت زدہ‘ قرار دیا جائے کیونکہ حالیہ طوفانی بارشوں سے اِس تحصیل میں کھڑی فصلوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اُنہوں نے متاثرہ کاشتکاروں کو اُن کی فصلیں خراب ہونے کی وجہ سے جلدازجلد مالی امداد دینے کا بھی مطالبہ کیا اور کہا کہ اگر صوبائی حکومت اِس سلسلے میں فوری اقدامات نہیں کرتی تو وہ اِس سلسلے میں عدالت ِعالیہ (پشاور ہائی کورٹ) سے رجوع کریں گے۔ ذہن نشین رہے کہ حالیہ طوفانی بارشوں سے ضلع مردان اور ملحقہ اضلاع حتیٰ کہ ضلع پشاور تک کے کئی دیہی علاقوں میں تمباکو‘ گنے‘ سبزی کی فصلیں اور پھلوں کے باغات کو نقصان پہنچا ہے جبکہ ضلع مردان کے صرف ایک انتخابی حلقے (PK-55) ہی میں نہیں بلکہ مجموعی طور پر زرعی نقصانات ہوئے ہیں اور اِس بارے میں متعلقہ ڈپٹی کمشنروں کی جانب سے مراسلے بھی ارسال کئے گئے ہیں جبکہ ذرائع ابلاغ نے اِن زرعی نقصانات کی جانب بروقت توجہ بھی دلائی۔ جمشید خان کے بقول وفاقی حکومت صرف تمباکو کی فصل سے سالانہ 200 ارب روپے ٹیکس وصول کرتی ہے جبکہ تمباکو کو فصل کی بجائے منشیات کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ تمباکو کے کاشتکاروں کو اُن کی فصل (محنت) کا خاطرخواہ معاوضہ (صلہ) نہیں مل رہا۔ یہ سبھی حقائق اپنی جگہ درست اُور فوری حل طلب ہیں جن کے حوالے سے صوبائی اسمبلی کا خصوصی اجلاس طلب کر کے بحث ہونی چاہئے۔ جمشید خان نے ایک ایسے وقت پر آواز اُٹھائی ہے کہ جبکہ صوبائی حکومت بجٹ کی تیاری اور اُسے ایوان میں پیش کرنے کے مراحل سے گزر رہی ہے اور بجٹ پیش کرنے کے بعد (بجٹ سیشن کے دوران) جب ہر رکن اسمبلی کو بولنے کا موقع دیا جائے گا تو جماعتی وابستگیوں اُور ایوان کے اندر احتجاج برائے احتجاج کی سیاست کا حصہ بننے کی بجائے اگر اراکین صوبائی اسمبلی اپنے اپنے حلقوں کے مسائل اُجاگر کریں بالخصوص زرعی علاقوں سے تعلق رکھنے والے اگر ایک اتحاد کی صورت اپنے ایک جیسے مطالبات کو فہرست کرکے ایوان میں پیش کریں تو صوبائی حکومت کے لئے زراعت سے متعلق گھمبیر صورتحال کو سمجھنے اور اِس کے سدباب و حل کے لئے اقدامات کرنے میں آسانی رہے گی۔