قومی اسمبلی میں ہنگامہ آرائی۔۔۔۔

بجٹ پر بحث کے حوالے سے قومی اسمبلی کا اجلاس نہایت ہی ہنگامہ خیز رہا۔منتخب ارکان نے بجٹ کی کتابوں سے ایک دوسرے پر حملہ کردیا اس دوران ایک خاتون رکن اور قومی اسمبلی کا اہلکار زخمی ہوگیا۔ اپوزیشن اراکین نے شہباز شریف کے گرد حفاظتی حصار بنا ئے رکھا حکومت اور اپوزیشن ارکان نے ایک دوسرے کے خلاف جملے بازی کی، نعرے لگائے اور گالم گلوچ بھی کی،سپیکر اراکین اسمبلی کو خاموش کرانے کی بہت کوشش کی مگر کسی نے ان کی ایک نہیں سنی۔ اجلاس کے دور ان کئی حکومتی اراکین سیٹیاں بجانے کے ساتھ ٹی ٹی کے نعرے لگاتے رہے۔اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے سپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے میری تقریر کے دوران دانستہ طور پر حکومتی ارکان کومداخلت کرنے دی، آپ نے اس ایوان کا احترام مجروح کرایا،سپیکر کے منع کرنے کے باوجود کئی ارکان اپنے موبائل پر ایوان میں ہنگامہ آرائی کی وڈیو بھی بناتے رہے۔ حکومت اور اپوزیشن نے بجٹ پر بحث شروع ہونے سے پہلے ہی اعلان کیا تھا کہ وہ اپنے مخالفین کو بولنے نہیں دیں گے۔ ہمارے قومی ایوانوں میں اس طرح کے تماشے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور پرویز مشرف کی حکومت کے دوران بھی بجٹ سیشن اور صدر کے پارلیمنٹ سے خطاب کے وقت منتخب نمائندے ایوان کو مچھلی بازار بناتے رہے ہیں۔پرویز مشرف کا اپوزیشن کو مکا دکھانا بھی ہماری پارلیمانی تاریخ کا حصہ ہے۔ دنیا کے دوسرے ملکوں کے ایوانوں میں بھی ہنگامہ آرائی، دھینگا مشتی اور ایک دوسرے پر کرسیاں اچھالنے کے واقعات ہوتے رہے ہیں مگر ہمارے ہاں لوگ اپنے ذاتی جھگڑے بھی ایوان میں لے آتے اورگالم گلوچ کے ذریعے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں بیٹھے 324اراکین 22کروڑ عوام کی نمائندگی کرتے ہیں۔ انہیں عوام مینڈیٹ دے کر اپنے مسائل حل کرنے اور ملکی مفاد میں قانون سازی کیلئے ایوانوں میں بھیجتے ہیں۔ ملک اس وقت گوناگوں مسائل سے دوچار ہے۔ایک طرف کورونا کی وباء نے معیشت، معاشرت اور کاروبار زندگی کو درہم برہم کردیا ہے۔قوموں کے درمیان تجارت دو سالوں سے معطل ہے۔ دوسری جانب ملک ابھی تک دہشت گردی کے خلاف برسرپیکار ہے۔ ملک کی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر کشیدگی بڑھتی جارہی ہے۔ گذشتہ تین سالوں کے اندر ڈیڑھ کروڑ افراد اپنا روزگار کھوچکے ہیں۔قوم کا بال بال قرضوں میں جکڑا ہوا ہے اور ایف اے ٹی ایف میں بلیک لسٹ ہونے کی تلوار سروں پر لٹک رہی ہے۔آئے روز بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے اور غریب طبقے کیلئے جسم و جان کا تعلق برقرار رکھنا روز بروز مشکل ہوتا جارہا ہے۔ ملک کی 45فیصد آبادی خط غربت سے نیچے کی سطح پر زندگی گذار رہی ہے۔ قومی اداروں کو کرپشن کی دیمک نے چاٹ چاٹ کر کھوکھلا کردیا ہے۔ قوم یہ آس لگائی بیٹھی ہے کہ ان کے منتخب نمائندے اپنے سیاسی مفادات پس پشت ڈال کر ملک کو مسائل کے دلدل سے نکالنے کیلئے سر جوڑ کر بیٹھیں گے اورقوم کو درپیش مسائل کا کوئی حل نکالیں گے۔ قوم یہ سوال پوچھتی ہے کہ جب ان کے نمائندے اپنے مفادات کیلئے ایوانوں میں مشت و گریباں ہوں گے تو قوم کی حالت کیسے بدلے گی؟