بجلی‘احوال پر ایک نظر۔۔۔۔

ایوان ِصحافت (پشاور پریس کلب) کے عہدیداروں اور سینیئر اراکین (صحافیوں) سے ملاقات کے دوران ’پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو)‘ کے سربراہ انجینئر جبار خان نے دیگر اعلیٰ عہدیداروں کی موجودگی میں پیسکو اہلکاروں کی کارکردگی کے حوالے سے عوامی شکایات اور عمومی تاثر کے حوالے سے تعارفی کلمات اور بعدازاں سوال و جواب کے سلسلے میں جن خیالات کا اظہار کیا اُن سے صورتحال اور اِس سے متعلقہ مسائل کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”پیسکو کی خدمات کا معیار افرادی قوت کی کمی کی وجہ سے متاثر ہو رہا ہے کیونکہ سال2002ء سے پیسکو میں ملازمتوں پر پابندی عائد تھی‘ اِس لئے ہر سال ریٹائر ہونے والوں اور خدمات کا دائرہ وسیع کرنے یعنی بجلی صارفین کی تعداد میں اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے ملازمین کی تعداد بڑھائی نہیں جا سکی۔“ اپنی اِس بات کو واضح کرنے کیلئے اُنہوں نے پشاور کی نسبتاً جدید رہائشی بستی حیات آباد کی مثال دی‘ جو سال 2010ء تک بجلی کے فراہمی کے ایک سب ڈویژن پر مشتمل علاقہ تھا جس کے لئے 10 لائن مین تعینات تھے لیکن سال 2010ء میں بجلی صارفین کی تعداد میں اضافے (بجلی کی طلب بڑھنے کے بعد) حیات آباد کو 2 سب ڈویژنوں میں تقسیم کر دیا گیا یعنی ایک سب ڈویژن کا اضافہ کیا گیا لیکن دونوں سب ڈویژنز میں تعینات لائن مینوں کی تعداد ہر سال بڑھنے کی بجائے کم ہوتی چلی گئی اور اب صورتحال یہ ہے کہ حیات آباد کے مذکورہ سب ڈویژنز میں کل ’4 لائن مین‘ تعینات ہیں‘ جن پر کام کے بوجھ کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ پیسکو میں ملازمتوں پر عائد پابندی ہٹا دی گئی ہے اور افرادی قوت بڑھانے کی اجازت کے ساتھ اُمید ہے کہ خدمات کی فراہمی کے معیار و مقدار میں اضافہ ہوگا لیکن چونکہ سرکاری محکموں میں سزأ و جزأ کا تصور نہیں ہوتا اِس لئے ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ افرادی قوت میں اضافے (پیسکو کے غیرترقیاتی اخراجات بڑھانے) کے بعد بھی صارفین کی شکایات حل ہوں گی لیکن اگر کارکردگی جوں کی توں برقرار رہی تو ایسی صورت میں حکمت ِعملی کیا ہوگی؟ اِس حوالے سے انتظامیہ خاموش اور عوام سراپا سوال ہیں!
پیسکو اہلکاروں پر کام کا بوجھ اگر ادارے کی خدمات کے معیار کو متاثر کر رہا ہے تو زمینی حقیقت یہ ہے کہ یہ بوجھ کبھی بھی کم نہیں ہو گا کیونکہ آبادی اور بجلی صارفین کی تعداد میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے بالخصوص وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے بے گھر افراد کے لئے رہائشی منصوبے اور بینکوں کی جانب سے آسان شرائط اور کم شرح سود پر قرضہ جات کی فراہمی سے تعمیراتی شعبے میں تیزی آئی ہے اور یہ تیزی آئندہ مالی سال (2021-22ء) میں بھی برقرار رہے گی کیونکہ حکومت کی جانب سے تعمیراتی شعبے کیلئے وفاقی بجٹ میں مزید مراعات کا اعلان کیا گیا ہے جبکہ اِس سلسلے میں خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے بھی بجٹ میں فراخدالانہ اعلان متوقع ہے۔
پیسکو سے متعلق عوامی شکایات رفع کرنے کیلئے بجلی کے بوسیدہ ترسیلی نظام کی اصلاح اور ٹیکنالوجی پر انحصار کی ضرورت ہے جس کے بعد خدمات کے معیار و مقدار خودبخود درست ہو جائے گا کیونکہ جب بجلی کی کمی بیشی کی شکایات ہی نہیں رہیں گی اور بار بار بجلی تعطل سے دوچار ہی نہیں ہوگی تو شکایات بھی نہیں کی جائیں گی۔ مسئلے کی بنیادی جڑ ’خستہ حال ترسیلی نظام‘ ہے جسے تبدیلی اور وسعت کی ضرورت ہے۔ پیسکو کے سربراہ جب حیات آباد کی مثال دیتے ہیں کہ وہاں کے 2 سب ڈویژنز میں 4 لائن مین تعینات ہیں تو ذہن کے کسی گوشے میں اپنے مسائل لیکر جانے والے بغلیں جھانکنے لگتے ہیں اُور اُنہیں اپنا مسئلہ بھی بھول جاتا ہے جیسا کہ ریگی للمہ ماڈل ٹاؤن اور اِس سے ملحقہ رہائشی بستیوں میں مکانات کی تعمیراتی نقشہ جات منظوری کا عمل تیز ہوا ہے اور نئے مکانات بن رہے ہیں جن کیلئے بجلی کے کنکشن کی ضرورت شروع دن سے ہوتی ہے اُور چونکہ پشاور تین اطراف (مشرق‘ شمال اور جنوب) میں تیزی سے پھیل رہا ہے جبکہ مغرب کی جانب ’ضلع خیبر‘ کی الگ تقسیم کار کمپنی ہونے کی وجہ سے اِس علاقے کا بوجھ پیسکو کے کندھوں پر نہیں۔ اِس پوری صورتحال میں ”منصوبہ بندی کا فقدان“ اور ”سیاسی ترجیحات“ کو مدنظر رکھتے ہوئے ترقی و توسیع دکھائی دیتی ہے۔ آج بھی اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹرز کو ملنے والے ترقیاتی فنڈز سے بجلی کی فراہمی کے نظام میں توسیع اور اصلاح کی جاتی ہے حالانکہ بجلی سے متعلق مختص مالی وسائل میں اراکین اسمبلیوں کو دیئے جانے والے ترقیاتی فنڈز بھی شامل ہونے چاہئیں۔
گزشتہ ماہ (مئی 2012ء) نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (NEPRA) نے پورے ملک میں بجلی کے مختلف تقسیم کار اداروں (بشمول پیسکو) کی ’سالانہ کارکردگی رپورٹ برائے مالی سال 2019-20ء‘ جاری کرتے ہوئے جملہ تقسیم کار کمپنیوں کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا۔ ذہن نشین رہے کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں صارفین سے ’100فیصد (مکمل)‘ بجلی بل وصول کرنے میں بھی ناکام رہی ہیں تاہم پیسکو کی کارکردگی بل وصولی میں نسبتاً بہتر (قریب 90فیصد) ہے۔ لائن لاسز کا حجم22.521 ارب روپے ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ مشکل حالات میں افرادی قوت کی کمی کے باوجود پیسکو کی کارکردگی اگر نسبتاً بہتر ہے تو اس کمی کو پورا کرکے کارکردگی میں خاطر خواہ بہتری لائی جا سکتی ہے۔