خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ سے تعلق رکھنے والی ایک باہمت خاتون نے 70 سال کی عمر میں ’ڈاکٹر آف فلاسفی (PhD)‘ کی سند حاصل کی ہے اور دوسری خاص بات یہ ہے کہ اُنہوں نے یہ سند’’آثار قدیمہ‘‘سے متعلق ایک موضوعاتی تحقیق سے کی ہے‘ جو دریائے سندھ کے کنارے پروان چڑھی تہذیب (انڈس ویلی سیولائزیشن) کے ماخذ اُور اِس بنیادی نکتے سے متعلق ہے کہ اِس تہذیب سے قبل کیا اِس خطے میں آبادی موجود تھی؟ ڈاکٹر نزہت ہارون کا تعلق چارسدہ کے علم دوست گھرانے سے ہے۔ اُن کے والد سرکاری ملازم تھے‘ جن کی ملازمت کے دوران اُنہوں نے خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع سے ابتدائی و ثانوی تعلیم مکمل کی اُور والد کی ملازمت کے خاتمے (ریٹائرمنٹ) کے بعد ہاسٹل میں رہتے ہوئے ماسٹرز تک تعلیم مکمل کی۔ ماسٹر کی تعلیم کے دوران اُنہیں آثار قدیمہ کی تلاش کے ایک منصوبے پر تین ماہ کام کرنے کا موقع ملا جو وفاقی حکومت کے اشتراک سے ڈیرہ اسماعیل خان میں مکمل ہوا۔ آثار قدیمہ کی تعلیم میں کسی خاتون کی دلچسپی اُور پھر بیابان جگہ پر دو ڈھائی ماہ قیام یقینا آسان نہیں تھا اُور ہاسٹل کی زندگی کا یہی وہ دور تھا جب اُن کی آثار قدیمہ کے علوم سے دلچسپی میں اضافہ ہوا۔ پھر شادی ہوئی‘ ہوم اکنامکس کالج میں ملازمت کی‘ گھر کی ذمہ داریوں میں بال بچوں کے ساتھ اضافہ ہوا لیکن اُنہوں نے اپنی تعلیم کے سلسلے کو پہلی فرصت میں وہیں سے شروع کیا جہاں سے اِس کا سلسلہ ٹوٹا تھا۔ ملازمت کے دوران اُنہیں امریکہ جانے کا اتفاق ہوا جہاں ماہرین آثار قدیمہ سے ملاقاتوں میں اُنہیں ’پی ایچ ڈی‘ کے لئے تحقیق کا موضوع تجویز کیا گیا جس کی ضرورت ایک عرصے سے محسوس کی جا رہی تھی اُور عالمی سطح پر ہونے والے مذاکروں (سیمیناروں) میں اِس حوالے سے تحقیقی مقالے پیش کئے جاتے لیکن باقاعدہ ’پی ایچ ڈی تحقیق‘ نہیں ہوئی تھی۔ اِس طرح نزہت ہارون کے ہاتھ ایک ’نایاب موضوع‘ آیا‘ جس سے انصاف کرنے کے لئے اُنہوں نے کم وبیش چالیس سال محنت کی۔ کسی شادی شدہ خاتون کے لئے گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ ایک ایسی تحقیق کے لئے وقت نکالنا آسان نہیں ہوتا جس میں شہروں‘ دیہات اُور بیابانوں کی خاک چھاننا پڑے۔ جس میں کھدائی سے ملنے والے خاموش آثار قدیمہ سے بات چیت کی جائے اُور ایسی گھتیاں سلجھائی جائیں‘ جو انسانوں کی معلوم تاریخ و تہذیب سے متصادم بھی نہ ہو۔ بہت مشکل کام تھا‘ جسے ’علم دوستی‘ اُور ’مستقل مزاج طبیعت‘ کے تابع ’جنون‘ نے آسان بنا دیا اُور آج محترمہ نزہت ہارون صرف خیبرپختونخوا ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کے لئے باعث ِفخر ہیں یقینا جامعہ پشاور کے تدریسی عملے کا حصہ ہوتے ہوئے ’ہوم اکنامکس‘ کی طالبات کو اعلیٰ تعلیم کے مراحل مکمل کرنے کی جانب راغب کریں گی۔ علم کی شاخ کوئی بھی ہو لیکن اُس میں مدارج طے کرنے (آگے بڑھنے) کا عمل جاری رہنا چاہئے خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں پھیلی گندھارا تہذیب جس قدر معلوم (عرف ِعام) ہے اُس سے زیادہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے۔ اِس تہذیبی اثاثے کا حصہ مختلف مذاہب کی عبادت گاہوں کی صورت کہیں ظاہر اور کہیں دفن حالت میں موجود ہے بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ گندھارا تہذیب کے زیادہ تر حصے کو تاحال دریافت نہیں کیا جا سکا ہے۔ حالیہ ترین دریافت نومبر 2020ء میں ہوئی جب اٹلی کے اشتراک سے سوات کے علاقے ’بریکوٹ غنڈائی (Barikot Ghundai)‘ میں کی گئی کھدائی سے ویشنو (Vishnu) بھگوان سے منسوب مندر کے آثار ملے۔ ذہن نشین رہے کہ ہندو مذہب کے 3 مرکزی دیوتا (براہمہ‘ ویشنو اُور شیوا) سے دنیا کی تخلیق‘ اِسے قائم و دائم رکھنے کے امور اُور اِس کے اختتام منسوب ہے۔ سوات کے ویشنو مندر کے بارے میں ماہرین آثار ِقدیمہ کا اتفاق ہے کہ یہ 1300سال پرانا مندر ہے جسے ہندوشاہی دور میں تعمیر کیا گیا تھا۔ ذہن نشین رہے کہ ہندوشاہی دور 850ء سے 1026ء تک رہا اُور اِس دور حکومت میں وادیئ کابل (مشرقی افغانستان) سے گندھارا تہذیب کے مرکز (پاکستان) اُور بھارت کے چند (شمال مغربی) حصوں پر حکومت کی جاتی تھی۔ سوات میں کی گئی مذکورہ کھدائی سے صرف مندر ہی نہیں بلکہ اِس سے متصل تعمیرات بالخصوص فوجی چھاؤنی کے آثار بھی ملے اُور یہ سوات میں دریافت ہونے والے ہندوشاہی دور کے آثار کی پہلی مرتبہ دریافت ہے‘ جسے اٹلی کے شریک ماہرین نے ’گندھارا تہذیب کی پہلی عبادتگاہ (مندر)‘ قرار دیا۔ خیبرپختونخوا حکومت آثار قدیمہ سے متعلق تحقیق اُور کتب کے اُردو تراجم منصوبے کا اعلان کرنے کے علاوہ ’آثار قدیمہ یونیورسٹی‘ کا قیام عمل میں لانے جیسے انقلابی اقدامات کر سکتی ہے۔ خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں تہذیبوں کے آثار آج بھی موجود ہیں اُور زندہ رہیں گے اگر اِن کی دریافت میں زیادہ دلچسپی لی جائے اُور آثار قدیمہ و متعلقہ علوم کی جانب نئی نسل کو راغب کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ’یونیسکو‘ کی جانب سے پاکستان کے جن 6 مقامات (موہنجوداڑو‘ ٹیکسلا‘ تخت بھائی‘ شالیمار باغ‘ مکلی قبرستان اُور روہتاس قلعہ) کو عالمی ورثہ قرار دیا گیا ہے تو ایسے درجنوں دیگر مقامات بھی ’ورلڈ ہیئرٹیج سائٹس‘ کا حصہ بن جائیں اُور اگر ایسا ہو جاتا ہے تو اِس سے غیرملکی سیاحوں کی پاکستان آمد اُور عالمی سیاحتی مقامات کے تحفظ و بحالی کے منصوبوں کے لئے عالمی امداد بھی ملے گی اُور صرف آثار قدیمہ ہی نہیں بلکہ دیگرشعبوں میں بھی ترقی (آمدنی کے) امکانات زیادہ روشن ہو جائیں گے۔