خیبرپختونخوا کی سالانہ آمدن و اخراجات کا میزانیہ برائے مالی سال 2021-22ء پیش کرتے ہوئے (اٹھارہ جون) وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے کہا کہ ’اے این جی فارمولے (معاہدے)‘ کے تحت خیبرپختونخوا کو ’پن بجلی کا منافع‘ دیا جائے اور یہ منافع 2017ء کی مردم شماری کی بنیاد پر ہونا چاہئے۔“ اِس مطالبے کی گونج ’اٹھارہ جون‘ ہی کے روز ایوان بالا (سینیٹ آف پاکستان) میں بھی سنائی دی جہاں خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مشتاق احمد خان نے ’بجٹ 2021-22ء بحث‘ میں حصہ لیتے ہوئے 30 منٹ سے زائد اپنے خطاب میں خیبرپختونخوا کا مقدمہ بھی پیش کیا اور کہا کہ ”نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں ’نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی)‘ کے تحت صوبوں کے لئے وسائل مختص نہیں کئے گئے‘ جس کے بغیر بجٹ کی قانونی حیثیت پر سوالات اُٹھ رہے ہیں کیونکہ آئین کی شق 160 پر عمل نہیں ہورہا۔ قبائلی اضلاع جو ماضی میں وفاق کے زیرانتظام علاقے تھے اور اِن نئے ضم ہونے والے اضلاع کی ذمہ داریوں کا بوجھ تو خیبرپختونخوا کے کندھوں پر ڈال دیا گیا ہے لیکن اِس کی اضافی آبادی کو شمار اور اِس کی ضروریات کو مدنظر نہیں رکھا جا رہا۔ وہ آبادی جو عملاً ایک کروڑ سے زیادہ ہے لیکن اُسے مردم شماری میں پچاس لاکھ شمار کیا گیا ہے۔ یہ خیبرپختونخوا (وفاق کی ایک اکائی) کے ساتھ ’وفاق کا ظلم‘ ہے۔ اِسی طرح ’نیٹ ہائیڈل پرافٹ (پن بجلی کا منافع)‘ آئین کے آرٹیکل 161 کے تحت خیبرپختونخوا کا حق ہے کوئی احسان نہیں۔ فی الوقت صرف ’پن بجلی منافع‘ کی مد میں خیبرپختونخوا کا حق 630 ارب روپے بنتا ہے اور اسلام آباد پشاور کا مقروض ہے! عجیب مرحلہئ فکر ہے کہ خیبرپختونخوا سے بجلی کے بلوں میں وصول ہونے والے پیسے بھی نہیں دیئے جا رہے اور وفاقی بجٹ میں ’ہائیڈل پرافٹ‘ کی ادائیگی کے بارے ایک لفظ بھی نہیں کہا گیا۔“جماعت اسلامی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر نے وفاقی بجٹ دستاویز میں پیش کردہ اعدادوشمار اور ماضی وحال پر مبنی حقائق کا زیادہ گہرائی سے ’پوسٹ مارٹم (جائزہ پیش)‘ کیا اور وفاقی بجٹ کو ”تصورات“ پر مبنی (غیرحقیقی) قرار دیتے ہوئے توجہ دلائی کہ ”حکومت نے رواں مالی سال 2020-21ء کے دوران بیرون ملک سے آنے والی رقومات (ترسیلات زر) جو کہ 29 ارب ڈالر سے زیادہ ہیں کی بنیاد پر جو آمدن سے متعلق منصوبہ بندی کی گئی ہے جو درست نہیں اور آئندہ مالی سال (2021-22ء) کیلئے 31.3 ارب ڈالر کا تخمینہ لگایا ہے اور اِسی تخمینہ (آمدنی) کی بنیاد پر پورا بجٹ بنایا گیا ہے جبکہ بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر پاکستان میں ایسا کونسا انقلاب آیا کہ اچانک 29 ارب روپے جیسے غیرمعمولی ترسیلات زر جمع ہوئے؟ حقیقت سے کام لیتے ہوئے اُن محرکات کو پیش نظر رکھنا چاہئے جن کی وجہ سے اِس قدر ترسیلات زر ممکن ہوئے ہیں۔ 1: پاکستان میں مہنگائی کی شرح بلند ہے‘ جس کی وجہ سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو اپنے عزیزواقربا کی کفالت کیلئے پہلے سے زیادہ سرمایہ بھیجنا پڑتا ہے۔ 2: کورونا وبا کی وجہ سے بیرون ملک سے آمدورفت ممکن نہیں رہی جس کی وجہ سے سارا پیسہ بینکاری (قانونی طریقوں یعنی بینکنگ چینلز) کے ذریعے آ رہا ہے۔ جب کورونا وبا ختم ہو جائے گا یا ویکسینیشن کی وجہ سے اِس عالمی وبا کے اندھا دھند پھیلاؤ کے امکانات کم ہو جائیں گے تو ترسیلات زر میں کمی آئے گی جس کا ایک محرک بچت بھی ہو گا تو یہ ممکن نہیں رہے گا کہ 31.3 ارب ڈالر (تین کھرب روپے سے زائد) جیسے بلند ترسیلات زر جمع ہوں۔۔“ خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والا ہر سیاسی رہنما ’اے جی این قاضی کمیٹی‘ کے مطابق صوبے کے پن بجلی منافع (خیبرپختونخوا کے حقوق) کے لئے آواز اُٹھاتا ہے۔ ضمنی موضوع ہے کہ ’اے جی این قاضی‘ بھی ہیں جن کا پورا نام ’آفتاب غلام نبی قاضی‘ (پیدائش 6 نومبر 1919ء۔ وفات 6 اگست 2016ء) تھا اور قیام پاکستان کے بعد اِنہوں نے بھارت میں اعلیٰ سرکاری ملازمت چھوڑ کر پاکستان ہجرت کو ترجیح دی۔ سیکرٹری خزانہ سندھ اور سیکرٹری گورنر سندھ کے علاوہ کئی اہم عہدوں جن میں گورنر سٹیٹ بینک کے عہدے پر فائز رہے۔ اِنہیں پاکستان کی بیوروکریسی (افسرشاہی) میں طویل عرصہ سول سرونٹ رہنے کا منفرد اعزاز ملا اور 1994ء میں جب وہ سرکاری ذمہ داریوں سے سبکدوش کئے گئے تو اُن کی عمر 75 سال تھی۔ جولائی 1985ء میں ’آفتاب غلام نبی قاضی‘ جب پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین تھے تو اُن کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی گئی جسے آئین کے آرٹیکل 161(2) کے تحت پن بجلی سے حاصل ہونے والی آمدنی کی صوبوں میں تقسیم کی ذمہ داری سونپی گئی تاکہ وہ آئین کی تشریح کرتے ہوئے اتفاق رائے سے کوئی حل (فارمولہ) طے کریں۔ آئین کی مذکورہ شق 162(2) کہتی ہے کہ ”کسی پن بجلی منصوبے سے حاصل ہونے والی بجلی کی فروخت سے جو خالص منافع (net profit) وفاقی حکومت یا وفاقی انتظامیہ کو حاصل ہوگا وہ اُس صوبے کو دیا جائے گا جہاں پن بجلی بنانے کا مرکز (ہائیڈرو اسٹیشن) قائم ہوگا۔“ مذکورہ قاضی کمیٹی کو اِس ایک جملے پر مبنی آئینی شق کو تشریح کرنے اور اتفاق رائے پیدا کرنے میں 2 سال لگے‘ جو اگرچہ جامع تھا لیکن غوروخوض کا عمل جولائی 1987ء میں پیش کردہ فارمولے سے لیکر جنوری 1991ء تک جاری رہا جب ’مشترکہ مفادات کونسل‘ نے ’اے جی این قاضی کمیٹی‘ کی سفارشات کی منظوری دی لیکن تب سے آج تک وفاق نے خیبرپختونخوا کا حق باقاعدگی سے ادا نہیں کیا اور اِس حق (پن بجلی منافع) کے حصول کے لئے خیبرپختونخوا کی جدوجہد آج بھی جاری ہے‘ جس سے متعلق ہر خاص و عام محفل میں بات ہوتی ہے۔ فی الوقت خیبرپختونخوا کی موجودہ حکمراں جماعت (تحریک انصاف) سمجھتی ہے کہ ”اے جی این قاضی کمیٹی فارمولے کے مطابق ’نیٹ ہائیڈل پرافٹ (پن بجلی منافع)‘ سالانہ 20 ارب روپے سے بڑھ کر سال 2023 ء تک 200 ارب روپے ہو جائے گا۔بجٹ تقریر کے دوران صوبائی وزیرخزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے کہا کہ ”این ایف سی فارمولے میں ضم شدہ اضلاع کی آبادی اور دیگر شماریات کو بھی مدنظر رکھا جائے۔ مذکورہ فارمولے کے تحت ’پن بجلی منافع کی ادائیگی کی جائے۔ اِسی طرح عبوری مدت کے لئے 2016ء کی مفاہمتی یاداشت پر من و عن عمل کرتے ہوئے 5 فیصد ’انڈیکسیشن کی ادائیگی‘ بھی یقینی بنائی جائے اور واپڈا کی ادائیگی کے نظام سے اِسے الگ کر کے ’نیٹ ہائیڈل پرافٹ‘ کی باقاعدہ ماہانہ ادائیگی کا بندوبست کیا جائے۔ انہوں نے وفاقی حکومت کا نام لئے بغیر یہ مطالبہ بھی کیا کہ نیٹ ہائیڈل و دیگر بقایا جات کی یکمشت ادائیگی کی جو یقین دہانی کروائی گئی تھی اُس پر عمل درآمد کیا جائے۔ خوش آئند ہے کہ حزب اختلاف ہو یا حزب اقتدار‘ خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے ہر سیاسی جماعت ’این ایف سی (نیشنل فنانس کمیشن)‘ اور ’این ایچ پی (نیٹ ہائیڈل پرافٹ)‘ کے تحت صوبے کے مالیاتی حقوق کے لئے جدوجہد کر رہی ہے۔ کسی کا لب و لہجہ نرم تو کسی کے اپنا مدعا بیان کرنے کیلئے سخت الفاظ کا انتخاب کر رکھا ہے‘ جس سے عوامی حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ دیگر صوبوں اُور بالخصوص وفاق کو خیبرپختونخوا کی تعمیروترقی بشمول ضم شدہ (قبائلی) اضلاع سے متعلق کئے گئے وعدے یاد دلائے جائیں اور خیبرپختونخوا کے آئینی حقوق کی ادائیگی میں مزید تاخیر نہ کی جائے۔