قومی مفاد کی سیاست۔۔۔۔

 قومی اسمبلی میں گذشتہ روز ہنگامہ آرائی، دھینگا مشتی، گالم گلوچ اورتشدد کے واقعات کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایوان کی کاروائی پرامن انداز میں چلانے کا معاہدے طے پا گیا۔حکومت نے حزب اختلاف کو یقین دہانی کرائی کہ الیکشن ترمیمی بل اور بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو سے متعلق بل سمیت 30 بلوں پر نظرثانی کی جائے گی جس کیلئے حکومت اور اپوزیشن کے ارکان پر مشتمل 12رکنی کمیٹی تشکیل دینے کا معاہدہ بھی طے پا گیا۔جس کے بعد اپوزیشن نے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک واپس لے لی۔معاہدے کے تحت حکومت اور اپوزیشن کے لیڈروں کی تقاریر میں غیر ضروری مداخلت نہیں ہو گی،وزیر اعظم،اپوزیشن لیڈر،پارلیمانی لیڈرز سمیت تمام ارکان کا ذاتی احترام ملحوظ خاطر رکھا جائے گا،ذاتی حملے کرنے،رولز کا احترام نہ کرنے اورگالم گلوچ پر سخت تادیبی کاروائی کی جائیگی،غیر پارلیمانی طرز عمل اور الفاظ کی اجازت نہیں ہو گی۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان طے پائے والامعاہد ہ سپیکر اسد قیصر نے ایوان میں پڑھ کر سنایا۔بعد از خرابی بیسیار حکومت اور اپوزیشن کو قومی ایوان کے تقدس کا خیال آہی گیا۔ جمہوری معاشرے میں اپوزیشن کا کردار بہت اہم ہوتا ہے اس کی حیثیت گھوڑے کے لگام جیسی ہوتی ہے۔ اقتدار کی زین پر بیٹھنے کے بعد اگر حزب اقتدار من مانی اور سرکشی پر اتر آئے تو اپوزیشن اسے لگام دے کر واپس اپنی راہ پر لگادیتی ہے۔اگر اپوزیشن فعال ہو تو حکمران جماعت کو اختیارات سے تجاوز کرنے کی جرات نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ کرپشن کرسکتی ہے۔ جمہوری قواعد میں اپوزیشن کو آدھے حکمران کا درجہ دیتا جاتا ہے اور وہ اگلی باری کا حکمران تصور کیا جاتا ہے۔ہمارے ہاں کی جمہوریت ابھی تک اپنی ارتقاء کی منزلیں طے کر رہی ہے  اور سیاسی جماعتوں کے درمیان باہمی اعتماد کی کمی ہے اس کے ساتھ ساتھ عدم برداشت اور ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو قبول کرنے کا جذبہ بھی مفقود ہے ماضی میں سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کے خلاف جو رویہ اپنائے رکھا اس  نے بھی جمہوری روئیوں کو کمزور کیا ہے۔پیپلز پارٹی کی قیادت پر مسلم لیگ کے دور میں بیس سے زیادہ مقدمات بنائے گئے جن میں سے اٹھارہ مقدمات میں وہ بری ہوچکے ہیں جبکہ نصف درجن مقدمات ہنوز چل رہے ہیں اسی طرح مسلم لیگ کے قائدین کے خلاف پیپلز پارٹی حکومت کے دور کے مقدمات بھی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں نے میثاق جمہوریت کے نام پر لندن معاہدے پر بھی دستخط کئے تھے مگر اس معاہدے کی ایک شق پر بھی عمل نہیں ہوسکا۔ یہ بات طے ہے کہ موجودہ حکمران جماعت کے کرسی اقتدار سے اترنے کے بعد اس کے خلاف بھی کئی سیاسی مقدمات بنائے جائیں گے‘ سیاست دانوں کی بقاء جمہوری نظام کے قائم رہنے سے مشروط ہے۔ اس لئے انہیں اب سنجیدہ طرزعمل اختیار کرنا ہوگا۔ پارلیمنٹ میں ملک و قوم کی ترقی کیلئے پالیسیاں بنائی جاتی ہیں دنیا کے کسی بھی جمہوری ملک میں قومی پالیسیوں پر سیاست بازی نہیں ہوتی۔ ہماری سیاسی قیادت کو بھی ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے، خود انحصاری کی منزل کا تعین اور قوموں کی برادری میں پاکستان کی ساکھ بہتر بنانے کے لئے مل بیٹھ کر مشترکہ لائحہ عمل طے کرنا چاہئے۔ اور پھر اس قومی پالیسی پر عمل درآمد کیلئے حکومت اور اپوزیشن کے کردار کو متعین کرنا چاہئے۔ ہم نے 74 سالوں تک ذاتی مفادات کی سیاست کرکے اس ملک اور قوم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اب قومی مفادات کی پالیسی اختیار کرنے کا وقت آگیا ہے۔ ملک کی سیاسی جماعتوں اور قومی رہنماؤں کو اب خود کو قومی مفادات کے سانچے میں ڈھالنا ہوگا۔ موجودہ حالات میں جس قسم کا معاہدہ ایوان کے امور چلانے کے لئے کیا گیا ہے اسے وسعت دی جا سکتی ہے اور جمہوریت کی بقاء کے لئے باہمی وسیع تعاون کے امکانات سے فائدہ اٹھایا جانا چاہئے۔